انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پائیدار توانائی کے اہداف کے حصول کی موجودہ کوششیں ناکافی

تھائی لینڈ میں ایک مکینک شمسی توانائی کے ایک پینل کی دیکھ بھال کرتے ہوئے۔
© ADB
تھائی لینڈ میں ایک مکینک شمسی توانائی کے ایک پینل کی دیکھ بھال کرتے ہوئے۔

پائیدار توانائی کے اہداف کے حصول کی موجودہ کوششیں ناکافی

پائیدار ترقی کے اہداف

اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا پائیدار ترقی کے ساتویں ہدف کے حصول کے لئے درست راہ پر گامزن نہیں ہے۔ اس ہدف کا تعلق تمام انسانوں کے لئے سستی اور قابل بھروسہ توانائی تک رسائی یقینی بنانے سے ہے۔

ایس ڈی جی7 پر پیش رفت کا جائزہ: بین الاقوامی ادارہ برائے توانائی (آئی ای اے)، قابل تجدید توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی آر ای این اے)، اقوام متحدہ کے شماریاتی ڈویژن (یو این ایس ڈی)، عالمی بینک اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی 'توانائی کے شعبے میں پیش رفت' سے متعلق رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ایس ڈی جی 7 کے بروقت حصول کی راہ پر حالیہ کوششیں ناکافی ہیں۔

ایس ڈی جی7 تک رسائی سے متعلق مخصوص معاملات پر کچھ پیش رفت ضرور ہوئی ہے، مثال کے طور پر بجلی کے شعبے میں قابل تجدید توانائی کے استعمال کی شرح بڑھ گئی ہے، تاہم 2030 تک اس مقصد کے حصول کے لئے طے شدہ اہداف تک پہنچنے کے لئے ہونے والی پیش رفت ناکافی ہے۔

ایس ڈی جی7 کے تحت سستی، قابل بھروسہ، پائیدار اور جدید توانائی تک رسائی یقینی بنائی جانا ہے۔ اس ہدف میں دنیا بھر کے لوگوں کو بجلی اور ماحول دوست انداز میں کھانا پکانے کے طریقوں تک رسائی دینا، توانائی کی استعداد میں بہتری کی تاریخی شرح کو دوگنا کرنا اور عالمی سطح پر زیراستعمال ہر طرح کی توانائی میں قابل تجدید ذرائع کے حصے میں نمایاں اضافہ کرنا شامل ہے۔

برازیل میں 80% سے زیادہ توانائی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے۔
Alan Santos/PR
برازیل میں 80% سے زیادہ توانائی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے۔

ایس ڈی جی7 کے حصول کے بڑے فوائد

اس ہدف کے حصول کی صورت میں لوگوں کی صحت اور بہبود میں بڑے پیمانے پر اور مثبت اثر پڑے گا اور انہیں فضائی آلودگی جیسے ماحولیاتی اور سماجی خدشات سے تحفظ میں مدد دی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ بنیادی طبی نگہداشت اور صحت کی خدمات تک رسائی میں بھی وسعت آئے گی۔

یوکرین میں جاری جنگ کے نتیجے میں مزید بگڑ جانے والا توانائی کا عالمی بحران متوقع طور پر قابل تجدید توانائی کے استعمال اور اس توانائی کی استعداد میں بہتری لائے گا جیسا کہ بعض حکومتوں نے اس شعبے میں سرمایہ کاری بڑھا دی ہے۔

تاہم 'آئی آر ای این اے' کے اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کووڈ۔19 کے آغاز سے پہلے ہی کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ماحول دوست توانائی کے لئے سرکاری سطح پر کی جانے والی سرمایہ کاری میں کمی آنا شروع ہو گئی تھی اور چند ممالک میں ہی اس شعبے میں مالی وسائل فراہم کئے جا رہے ہیں۔

بجلی تک عدم رسائی اور مستقبل کے خدشات

موجودہ اندازوں کے مطابق اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو 2030 میں 1.9 بلین لوگوں کو ماحول دوست انداز میں کھانا پکانے کی سہولیات میسر نہیں ہوں گی اور 660 ملین لوگوں کو بجلی تک رسائی نہیں ہو گی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کمی سے دنیا کی آبادی میں شامل انتہائی بدحال حصے کی صحت پر منفی اثر پڑے گا اور موسمیاتی تبدیلی کی رفتار تیز ہو جائے گی۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال 3.2 ملین لوگ آلودگی پھیلانے والے ایندھن اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے باعث لاحق ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں چیزوں کے باعث گھریلو فضائی آلودگی کی زہریلی سطح سے متاثر ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

انڈیا میں ایک خاتون اپنے گھر پر لگے شمسی توانائی کے پینل کے ساتھ۔
UN News
انڈیا میں ایک خاتون اپنے گھر پر لگے شمسی توانائی کے پینل کے ساتھ۔

آئندہ نسل کا تحفظ

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کا کہنا ہے کہ "ہمیں اس معاملے میں فی الفور اقدامات کر کے آئندہ نسل کا تحفظ کرنا ہو گا۔ توانائی تک عالمگیر رسائی میں مدد دینے کے لئے ماحول دوست اور قابل تجدید توانائی کے حصول کے طریقوں پر سرمایہ کاری کی بدولت ہی ہم حقیقی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ گھروں میں ماحول دوست انداز میں کھانا پکانے کی ٹیکنالوجی اور طبی مراکز میں قابل بھروسہ بجلی کی فراہمی دنیا کی انتہائی بدحال آبادی کی صحت کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے شماریاتی ڈویژن کے ڈائریکٹر سٹیفن شوین فیسٹ نے کہا ہے کہ بجلی تک رسائی کے حوالے سے حالیہ منفی رحجانات کے باوجود گزشتہ ایک دہائی کے عرصہ میں بجلی سے محروم افراد کی مجموعی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ 2010 میں ایسے لوگوں کی تعداد 1.1 بلین تھی جو 2021 میں کم ہو کر 675 ملین رہ گئی۔