انسانی کہانیاں عالمی تناظر

قدرتی آفات سے نمٹنے کی حکمت عمل ناکافی اور کمزور

ترکیہ کے زلزلے سے متاثرہ علاقے میں ایک تباہ حال عمارت
© UNOCHA/Matteo Minasi
ترکیہ کے زلزلے سے متاثرہ علاقے میں ایک تباہ حال عمارت

قدرتی آفات سے نمٹنے کی حکمت عمل ناکافی اور کمزور

پائیدار ترقی کے اہداف

اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے جنرل اسمبلی کو بتایا ہے کہ قدرتی آفات کے خطرے سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر ہونے والی پیش رفت کمزور اور ناکافی ہے جس سے 2030 تک پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کا مقصد خطرے میں ہے۔

جنرل اسمبلی میں رکن ممالک قدرتی آفات سے لاحق خطرات کی روک تھام کے لئے سینڈائی فریم ورک پر عملدرآمد کے حوالے سے پیش رفت کا جائزہ لینے کے لئے جمع ہوئے۔

Tweet URL

2015 میں طے پانے والے اس معاہدے کا مقصد اس دہائی کے آخر تک قدرتی اور انسانی سرگرمیوں سے لاحق خطرات کے نتیجے میں ہونے والے نقصان، تباہی اور اموات میں کمی لانا ہے۔

اجلاس میں رکن ممالک نے ایک سیاسی اعلامیے کی مںظوری دی جس میں علاقائی اور قومی سطح پر آفات سے لاحق خطرے سے متعلق معلومات اور تجزیوں کے تبادلے کے لئے قومی طریقہ ہائے کار کو بہتر بنانے کے لئے کہا گیا ہے۔

نئی حکمت عملی کی ضرروت

اس موقع پر جنرل اسمبلی کے صدر سابا کوروشی کا کہنا تھا کہ یہ وسط مدتی جائزہ "اجتماعی طور پر اپنی راہ تبدیل کرنے کے لئے 2030 سے قبل آخری موقع ہے"۔ انہوں نے اس معاملے میں عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ "ہمارے پاس آٹھ سال باقی ہیں اور ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہماری پیش رفت کی رفتار سست ہے۔ 2015 کے بعد آفات سے متاثرہ لوگوں کی معلوم تعداد 80 گنا بڑھ گئی ہے۔"

فیصلہ کن موڑ  

اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل نے اجلاس کو بتایا کہ خطرے سے نمٹنا ہمارے لئے انتخاب نہیں بلکہ ایک عالمگیر عہد ہے۔

امینہ محمد کا کہنا تھا کہ "ہماری دنیا تاریخ کے ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ 2030 کی جانب نصف وقت گزارنے کے بعد ہمیں اعتراف کرنا چاہئیے کہ ہماری پیش رفت کمزور اور ناکافی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ ممالک نے موسمیاتی تبدیلی اور پائیدار ترقی سے متعلق اپنے وعدے پورے نہیں کئے جس کے نتیجے میں قدرتی حادثات نے لاکھوں جانیں لے لیں اور خواتین، بچوں اور دیگر کمزور لوگوں سمیت لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا جبکہ ان حادثات کو روکا جا سکتا تھا۔

کووڈ۔19 وبا، موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی کے تہرے بحران اور رہن سہن کے اخراجات میں اضافے، تیزی سے بڑھتی عدم مساوات اور یوکرین کی جنگ نے اس صورتحال کو اور بھی بگاڑ دیا ہے۔

بینکاری اور عالمگیر مالیاتی نظام میں انتظام سے متعلق بنیادی غفلت سے جنم لینے والے خطرات اس کے علاوہ ہیں جبکہ سائنس دان عالمی حدت کے پھیلتے اور ناقابل تلافی اثرات کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے اجلاس کو بتایا کہ خطرے سے نمٹنا ہمارے لئے انتخاب نہیں بلکہ ایک عالمگیر عہد ہے۔
UN Photo/Manuel Elías
اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے اجلاس کو بتایا کہ خطرے سے نمٹنا ہمارے لئے انتخاب نہیں بلکہ ایک عالمگیر عہد ہے۔

غیرمساوی پیش رفت

آفات کے خطرے میں کمی لانے سے متعلق اقوام متحدہ کے دفتر (یو این ڈی آر آر) کی سربراہ مامی میزوتوری نے کہا کہ 2015 کے بعد مثبت اقدامات بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔

مثال کے طور پر بڑھتی ہوئی تعداد میں حکومتوں نے قومی سطح پر نقصانات کا حساب رکھنے کے نظام قائم کئے اور انہیں بہتر بنایا ہے اور ایسے ممالک کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے جنہوں نے قدرتی آفات سے لاحق خطرے میں کمی لانے کے لئے قومی حکمت عملی تیار کی ہے۔

تاہم اس حوالے سے پیش رفت بدستور غیرمساوی ہے۔ مزید برآں، تباہی کی صورت اختیار کر جانے والے خدشات دنیا کے کم ترین ترقی یافتہ ممالک، چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک، خشکی میں گھرے ترقی پذیر ممالک، افریقہ کے ممالک اور متوسط آمدنی والے ممالک کو غیرمتناسب طور سے متاثر کر رہے ہیں۔

امینہ محمد نے کہا کہ "خدشات پر توجہ نہ دیے جانے کے باعث آفات اور حادثات تیزی سے سامنے آ رہے ہیں اور ان سے نمٹنے کی ہماری صلاحیت ناکافی ثابت ہوئی ہے۔ ان آفات اور حادثات کے لوگوں، روزگار، معاشرے اور اس ماحولی نظام پر بڑھتے ہوئے سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن پر لوگ انحصار کرتے ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ "سینڈائی فریم ورک کے نتیجے، مقصد اور اہداف کو حاصل کرنے کی آج پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہ سابا کوروشی نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے فریم ورک پر ہونے والے اجلاس کی صدارت کی۔
UN Photo/Manuel Elías
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہ سابا کوروشی نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے فریم ورک پر ہونے والے اجلاس کی صدارت کی۔

متاثرہ فرد کی داستان

ترکیہ کے مصطفیٰ کمال قلنچ نے اس نکتے پر مزید روشنی ڈالی جو فروری میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں بچ گئے تھے جس میں 50 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔

23 سالہ مصطفیٰ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ جب زلزلہ آیا تو وہ اپنے آبائی شہر ہاتاے میں اپنے خاندان سے ملنے گئے ہوئے تھے۔ زلزلے میں ہزاروں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں اور بے شمار لوگ بے گھر ہو گئے۔

انہوں ںے بتایا کہ "میں آج یہاں اس لئے کھڑا ہوں کہ زلزلے کے وقت میں جس عمارت میں تھا وہ منہدم ہونے سے بچ گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے ٹھیکے دار نے ہماری عمارت کو زلزلے سے محفوظ رکھنے کے لئے اسے اعلیٰ معیار پر تعمیر کیا تھا۔"

زلزلے کے بعد مصطفیٰ سمیت ان کے خاندان کے سات لوگ ایک ہفتہ تک کار میں رہے اور انہوں نے ایک ٹرین کی بوگی میں منتقل ہونے سے پہلے منجمد کر دینے والی سردی اور شدید بارش کا سامنا کیا۔ بالاآخر وہ ملک کے دوسرے سرے پر واقع اپنے رشتہ داروں کے گھر منتقل ہو گئے اور کئی ہفتے بعد ہاتاے میں واپس آئے۔

مصطفیٰ نے کہا کہ "ہم قدرتی آفات کے بارے میں پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ لیکن ہم یقینی طور پر ان سے بچاؤ کی تیاری کر سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کے کام کی بدولت دنیا بھر میں آنے والی قدرتی آفات اور حادثات میں میرے جیسے متاثرین کی تعداد پہلے سے کم ہو گی۔"