انسانی کہانیاں عالمی تناظر

آبادی میں اضافے پر ’سنسنی خیزی‘ ترک کریں اور خواتین کے حقوق مانیں

کانگو کی ایک سبزی منڈی میں خاتون دوکاندار۔
UN Women/Carlos Ngeleka
کانگو کی ایک سبزی منڈی میں خاتون دوکاندار۔

آبادی میں اضافے پر ’سنسنی خیزی‘ ترک کریں اور خواتین کے حقوق مانیں

معاشی ترقی

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے جنسی و تولیدی صحت (یو این ایف پی اے) نے بدھ کو شائع ہونے والی ایک اہم رپورٹ میں کہا ہے کہ خواتین کے جسم آبادی میں اضافے کے خدشات سے متعلق حکومتی پالیسیوں یا ''سنسنی خیز بیانیوں'' کے اسیر نہیں ہونے چاہئیں۔

'یو این ایف پی اے' نے دنیا کی آبادی کی صورتحال پر 2023 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگرچہ کرہ ارض پر آٹھ ارب آبادی کے سنگ میل تک پہنچنا ہمیں اپنی ''غیرمعمولی کامیابیوں'' کی یاد دہانی کراتا ہے لیکن اس تعداد کے حوالے سے خدشات ''پریشانی پیدا کر رہے ہیں اور مزید حکومتوں کو شرح تولید پر اثرانداز ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

Tweet URL

تاہم ادارے کا کہنا ہے کہ اگر ممالک آبادی میں تبدیلی کے حوالے سے بات چیت اور منصوبہ بندی سے متعلق بنیادی طور پر ازسرنو غور کرنے کے لیے تیار ہوں تو ہم آبادی کے حجم سے قطع نظر پھلتے پھولتے اور شمولیتی معاشرے تعمیر کر سکتے ہیں۔

'یو این ایف پی اے' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نتالیہ کینم نے اس رپورٹ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ''تولیدی اختیار اور صحت مند زندگیوں کے درمیان تعلق ایک غیرمتنازع حقیقت ہے۔''

بااختیاری کے فوائد

ان کا کہنا ہے کہ ''جب خواتین اپنے جسم اور زندگیوں کے بارے میں فیصلے کرنے کے لیے بااختیار ہوتی ہیں تو وہ خود، ان کے خاندان اور ان کے معاشرے بھی ترقی پاتے ہیں۔

تاہم گزشتہ برس نومبر میں جب دنیا کی آبادی آٹھ ارب تک پہنچنے کی خبر آئی تو اس پیغام کو زیادہ مقبولیت نہیں ملی تھی۔ اس کے بجائے ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں کہا گیا کہ دنیا کی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے اور اس موقع پر افراد کے حقوق اور صلاحیتوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔

نتالیہ کینم کا کہنا ہے کہ ''ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ شرح پیدائش کو مسئلہ گردانا جاتا ہے اور پیدائش کے حوالے سے لوگوں کے اختیار کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔''

اعدادوشمار کیا کہتے ہیں؟

اہم نوعیت کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں لاکھوں خواتین جنسی و تولیدی حقوق سے محروم ہیں۔ تقریباً 24 فیصد خواتین اور لڑکیاں جنسی تعلق سے انکار کا اختیار نہیں رکھتیں جبکہ 11 فیصد خواتین مانع حمل کے حوالے سے خود فیصلہ نہیں لے سکتیں۔ 

اس رپورٹ میں آٹھ ممالک کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ آبادی میں اضافے کے حوالے سے خبریں اور بات چیت سنتے رہتے ہیں ان کے لیے یہ اضافہ ''بہت زیادہ'' ہے۔

'یو این ایف پی اے' کے مطابق آبادی سے متعلق اعدادوشمار اس حوالے سے ایک مزید باریک نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ دنیا کی دو تہائی آبادی ایسے ممالک میں رہتی ہے جہاں خواتین کی تولیدی عمر کے دوران شرح پیدائش میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا جبکہ 2050 تک عالمی آبادی میں نصف متوقع اضافہ صرف 8 ممالک میں ہو گا۔

عام طور پر غیرمنصوبہ بند حمل، مانع حمل طریقوں تک رسائی کے فقدان یا زچگی کے حوالے سے معیاری نگہداشت، بانجھ پن اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے انفرادی تولیدی اہداف تک رسائی حاصل نہیں ہو پاتی۔

مزید براں شرح پیدائش کو موسمیاتی تبدیلی سے جوڑنے کے نتیجے میں سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والے ممالک اور شعبوں سے حساب نہیں لیا جا سکتا۔ دنیا کی آٹھ ارب آبادی میں سے 5.5 ارب لوگ جتنی رقم کماتے ہیں اس سے کاربن کے اخراج میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔

صنفی مساوات مسئلے کا حل

یو این ایف پی اے کا کہنا ہے کہ صنفی مساوات کا فروغ آبادی کو سنبھالنے اور مستحکم معاشرے تعمیر کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔

نتالیہ کینم کا کہنا ہے کہ مسئلے کا یہ حل عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ''جن ممالک میں اوسط عمر زیادہ اور شرح تولید کم ہے وہاں افرادی قوت میں صںفی مساوات کا حصول پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور آمدنی میں اضافے کے لیے موثر ترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ''جن ممالک میں شرح تولید زیادہ ہے وہاں تعلیم اور خاندانی مںصوبہ بندی کے ذریعے لوگوں کو بااختیار بنائے جانے کو معاشی نمو اور انسانی ترقی کی صورت میں بے پایاں فوائد کا حامل سمجھا جاتا ہے۔

جسمانی اختیار سے آغاز

'یو این ایف پی اے' کی سربراہ نے کہا کہ یہی اہم وجہ ہے کہ ادارہ ''جسمانی اختیار کو تسلیم کرنے کی وسیع تر کوششوں'' کے لیے کہہ رہا ہے اور سبھی کے جنسی اور تولیدی صحت کے حقوق کا حامی ہے۔

انہوں ںے کہا کہ اس حق کو ''آبادی کے بارے میں ہر طرح کی بات چیت کا نقطہء آغاز ہونا چاہیے۔''

پالیسی سے متعلق تجاویز

اس رپورٹ میں 'یو این ایف پی اے' نے تمام حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ انسانی حقوق برقرار رکھیں، پینشن اور طبی نگہداشت کے نظام مضبوط بنائیں، بڑی عمر کے لوگوں میں تحرک اور صحت کو فروغ دیں، مہاجرین کے حقوق کا تحفظ کریں اور موسمیاتی تبدیلی کے نقصان دہ اثرات کو محدود رکھنے کی کوشش کریں۔