انسانی کہانیاں عالمی تناظر

اسرائیل: دنیا جبری بیدخلی و قبضے کے خاتمے میں مدد دے، ماہرین

یروشلم کا ایک بازار
UN News/Maher Nasser
یروشلم کا ایک بازار

اسرائیل: دنیا جبری بیدخلی و قبضے کے خاتمے میں مدد دے، ماہرین

انسانی حقوق

انسانی حقوق کے ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی برادری مشرقی یروشلم میں اسرائیل کی جبری الحاق اور فلسطینیوں کی بیدخلی کی پالیسی کے خلاف فوری کارروائی کرے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ''دنیا الاقصیٰ میں اسرائیل کی لاپروائی اور غزہ، لبنان اور شام سے ہونے والی راکٹ باری کو دیکھتی چلی آئی ہے جبکہ اسرائیل سمیت دنیا بھر کے شہریوں کے خلاف مہلک حملے ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں ہیں۔ دوسری جانب اس سے دس گنا بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی اموات کو ویسی اہمیت نہیں دی جا رہی۔

Tweet URL

انہوں نے کہا کہ ''فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے جبری بے دخل کرنے کی صورت میں ایک ایسا المیہ جاری ہے جس پر کسی کی نظر نہیں۔''

بے سود کوششیں

ماہرین کا کہنا ہے کہ ''بین الاقوامی اداروں اور حقوق کے کارکنوں کی کوششوں کے باوجود اسرائیل کے زیرقبضہ علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے اور امتیازی قوانین کی بنیاد پر انہیں ان کی زمین اور املاک سے محروم کرنے کا عمل جاری ہے۔ یہ قوانین یروشلم میں یہودی ملکیت کو مضبوط بنانے اور اس کی آبادیاتی ساخت اور حیثیت کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کرنے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے اپنی آبادی کی مقبوضہ علاقے میں منتقلی سے اس کی جانب سے اس علاقے کو اپنے ماتحت لانے کی اس کے دانستہ ارادے کی تصدیق ہوتی ہے۔''

ماہرین نے اپنے سابقہ بیان کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ایسا کرنے کی سختی سے ممانعت ہے اور یہ اقدام بظاہر جنگی جرائم کی ذیل میں آتا ہے۔

اندازے کے مطابق قدیم یروشلم سے ملحقہ علاقوں جیسا کہ سلوان اور شیخ جراح میں اندازاً 150 فلسطینی خاندانوں کو اسرائیلی حکام اور آباد کار تنظیموں کی جانب سے جبراً بے دخل اور بے گھر کیے جانے کا خدشہ ہے۔

قانون وراثت کی من مانی تشریح

گزشتہ دہائیوں میں مقبوہ  مشرقی یروشلم میں سینکڑوں فلسطینیوں کی املاک اسرائیلی آباد کاروں نے قبضے میں لے لی ہیں جس کی بنیاد ایک ایسے قانون پر ہے جو 1948 سے پہلے کی یہودی املاک کو اس کے 'حقیقی یہودی مالکان' یا ان کے 'وارثوں' کو منتقل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق آباد کار تنظیمیں اس قانون کو توڑ موڑ کر فلسطینیوں کی املاک پر قبضہ کرتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا کہ ''یہ قانون کے ذریعے لوگوں کو نقصان پہنچانے کا اقدام ہے۔ یہ قانون اپنی ساخت میں امتیازی اور غاصبانہ ہے اور اس میں 1947 اور 1967 میں یروشلم، اسرائیل، اور مغربی کنارے اور غزہ کے بقیہ علاقوں سے بے گھر اور بے دخل ہونے والے 10 لاکھ فلسطینیوں اور ان کی اولادوں کو معاوضے کے حصول کا کوئی حق نہیں دیا گیا۔

بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی

ماہرین نے کہا کہ ''اسرائیلی نوآبادیوں کا قیام اور انہیں وسعت دینا بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے اور روم معاہدے کے تحت ایسے اقدامات کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔ کسی بھی ملک کو خودارادیت، مناسب رہائش اور جائیداد کی ملکیت اور مساوی سلوک سے متعلق حقوق سلب کیے جانے کے غیرقانونی اقدامات کو چپ چاپ قبول نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ''ایسے حقوق پر جبر ہی اسرائیل کے قبضے کی بنیاد ہے اور اسی لیے فلسطینیوں کے لیے اپنے انسانی حقوق سے مستفید ہونے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔ تقریباً 56 سال سے جاری قبضے اور اس کے کسی تادیبی کارروائی اور نتائج کے خوف کے بغیر جاری رہنے سے بین الاقوامی قانون اور اس کے نفاذ کے نظام کی ساکھ مذاق بن گئی ہے۔

ماہرین نے ان مسائل پر تواتر سے اسرائیل کی حکومت کے ساتھ بات کی لیکن اب تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

خصوصی اطلاع کار

خصوصی اطلاع کار اور انسانی حقوق کے دیگر غیرجانبدار ماہرین جینیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے متعین کیے جاتے ہیں۔ وہ کسی ملک میں انسانی حقوق سے متعلق مخصوص حالات یا موضوعی مسائل کی نگرانی کرتے اور اپنی رپورٹ دیتے ہیں۔

یہ اطلاع کار اور ماہرین اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور بلامعاوضہ کام کرتے ہیں۔