انسانی کہانیاں عالمی تناظر

یوکرین پر روسی حملے میں ہوئی ہلاکتوں پر انسانی حقوق چیف کو افسوس

یوکرین کے شہر بوچا میں ایک خاتون جنگ میں ہلاک ہونے والے اپنے بیٹے کی تدفین کے بعد اس کی قبر پر بیٹھی ہے۔
© UNICEF/Diego Ibarra Sánchez
یوکرین کے شہر بوچا میں ایک خاتون جنگ میں ہلاک ہونے والے اپنے بیٹے کی تدفین کے بعد اس کی قبر پر بیٹھی ہے۔

یوکرین پر روسی حملے میں ہوئی ہلاکتوں پر انسانی حقوق چیف کو افسوس

انسانی حقوق

یوکرین پر روس کے حملے کو ایک سال مکمل ہونے پر انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے اس جنگ میں اب تک بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتوں سے متعلق پریشان کن ثبوت پیش کیے ہیں۔

یوکرین میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے نگران مشن (ایچ آر ایم ایم یو) کی سربراہ میٹیلڈا بوگنر نے جینیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ ''روس کے محاصرے میں اور اس کے میزائلوں کی بمباری کا نشانہ بننے والے جنوبی شہر میریوپول میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد خاص طور پر زیادہ ہے۔

Tweet URL

میرے ساتھیوں نے ایک سابق جنگی قیدی سے بات کی جس کا تعلق میریوپول سے تھا اور اسے اس شہر کی سڑکوں پر لاشیں اکٹھی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ روس کے فوجیوں سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ روزانہ لاشوں کے ایک ٹرک کا کوٹہ پورا کریں گے۔ اس نے بتایا کہ میریوپول میں یہ کوٹہ پورا کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔''

انسانی قیمت

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) کی جاری کردہ تازہ ترین معلومات کے مطابق گزشتہ برس 24 فروری کو روس کا حملہ شروع ہونے کے بعد کم از کم 8,000 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ تقریباً 13,000 زخمی ہو چکے ہیں۔ او ایچ سی ایچ آر کے عملے نے متعدد مواقع پر کہا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے ایک بیان میں اس جنگ کی انسانی قیمت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی قانون کی پامالیاں روزانہ کی بنیاد پر جاری ہیں اور ایسے میں بڑھتے ہوئے مصائب اور تباہی سے امن کی جانب مراجعت مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔''

وولکر تُرک نے کہا کہ ''اپنے گھروں میں موجود اور محض پانی حاصل کرنے اور خوراک خریدنے جیسی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرنے والے شہریوں ہلاک کیا گیا ہے۔ ان میں 67 سالہ اولہا بھی شامل ہیں جو جنگ شروع ہونے سے اگلے روز خارکیئو میں اس وقت اپنے فلیٹ سے چند میٹر کے فاصلے پر میزائل حملے میں ہلاک ہو گئیں جب وہ دودھ خریدنے نکلی تھیں۔''

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ نے بتایا کہ کیسے ''سیرہی نامی 60 سالہ شخص اس وقت زاروقطار رونے لگا جب اس نے انسانی حقوق کے نگرانوں کو بتایا کہ 2 اپریل 2022 کو کیرسون کے ایک گاؤں میں ان کے گھر پر توپ کا گولہ گرنے سے ان کی چھ سالہ پوتی کی ٹانگ ان کی آنکھوں کے سامنے کٹ گئی تھی۔''

آٹح سالہ ایک بچی یوکرین کے علاقے ارپن میں اس عمارت کے باہر کھڑی ہے جہاں وہ اپنی ماں اور بہن کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہنے پر مجبور ہے۔
© UNICEF/Olena Hrom
آٹح سالہ ایک بچی یوکرین کے علاقے ارپن میں اس عمارت کے باہر کھڑی ہے جہاں وہ اپنی ماں اور بہن کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہنے پر مجبور ہے۔

مصائب کا حجم

وولکر تُرک نے بتایا کہ یوکرین میں لوگوں کی حقیقی تکالیف اس سے کہیں زیادہ ہیں جہاں بجلی اورپانی کی قلت ہے اور تقریباً 18 ملین لوگوں کو انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے جن میں 14 ملین بے گھر ہو چکے ہیں۔

یوکرین میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے نگران مشن (ایچ آر ایم ایم یو) کے مطابق مصدقہ طور پر ہلاک ہونے والے شہریوں میں مردوں کی تعداد 61.1 فیصد اور خواتین کی تعداد 39.9 فیصد ہے۔ اب تک کم از کم 487 بچے ہلاک اور 954 زخمی ہو چکے ہیں۔

انسانی حقوق کے نگرانوں نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ ہلاک ہونے والے ہر 10 شہریوں میں سے نو کی موت وسیع علاقے کو متاثر کرنے والے دھماکہ خیز مواد سے ہوئی جن میں توپ کے گولے، کروز اور بیلسٹک میزائل اور فضائی حملوں میں گرائے جانے والے بم شامل ہیں۔ ایسی بیشتر ہلاکتیں گنجان آباد علاقوں میں ہوئیں۔

ایچ آر ایم ایم یو کی ٹیم نے گزشتہ برس جنسی زیادتیوں، تشدد اور قانونی کارروائی کے بغیر سزائے موت دیے جانے کی صورت میں انسانی حقوق کی کھلی پامالیوں کی تفصیلات جمع کرنے کا کام بھی کیا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ بارودی سرنگیں اور جنگ میں بچ رہنے والا گولہ بارود پھٹنے سے 632 شہری متاثر ہوئے جن میں 219 ہلاک اور 413 زخمی ہو چکے ہیں۔