انسانی کہانیاں عالمی تناظر

تصادم والے علاقوں میں داعش سے بدستور خطرہ لاحق

ماں اور بچے عراقی شہر بابل کے ’الشہدا سٹیڈیم‘ کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ یہ یادگار اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں ایک خودکش حملہ ہوا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
© UNICEF/Wathiq Khuzaie
ماں اور بچے عراقی شہر بابل کے ’الشہدا سٹیڈیم‘ کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ یہ یادگار اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں ایک خودکش حملہ ہوا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

تصادم والے علاقوں میں داعش سے بدستور خطرہ لاحق

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ میں انسداد دہشت گردی کے شعبے کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ قیادت کے نقصان اور نقدی کے کم ہوتے ذخائر کے باوجود داعش عالمی امن اور سلامتی کے لیے بدستور خطرہ ہے۔

اقوام متحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل ولادیمیر وورنکوو نے یہ بات سلامتی کونسل کو بریفنگ میں بتائی جہاں انہوں نے اس دہشت گرد تنظیم کے بارے میں اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ پیش کرتے ہوئے اس کے خلاف متفقہ بین الاقوامی اقدام کی ضرورت پر زور دیا۔

Tweet URL

ولادیمیر وورنکوو نے اپنی بات کا آغاز دنیا بھر میں دہشت گردی کے متاثرین کی حالت زار سے کیا۔

انہوں نے کہا کہ ''میڈیا کی نگاہوں سے اوجھل اور شمار میں نہ آنے والے بہت سے لوگ اور معاشرے ایسے ہیں جو داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں اور افراد کے وحشیانہ جرائم سے متاثر ہوئے ہیں۔''

بدستور خطرہ

انہوں نے بتایا کہ جنگ زدہ علاقوں میں اور ان کے قریب جہاں یہ گروہ اور اس سے ملحقہ دہشت گرد تنظیمیں متحرک ہیں وہاں داعش کا بدستور بڑا خطرہ موجود ہے اور اس میں اضافہ ہوا ہے۔

وسطی و جنوبی افریقہ اور ساحل خطے میں ان گروہوں کا پھیلاؤ بدستور خاص تشویش کا باعث ہے۔

انہوں ںے سفیروں کو بتایا کہ ''اب جبکہ وبا سے متعلقہ پابندیوں میں نرمی آ رہی ہے تو سابق اطلاعات کی روشنی میں پرامن علاقوں میں داعش سے غیرمنسلک انفرادی کرداروں اور اس سے متاثرہ چھوٹے گروہوں کی جانب سے حملوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

اگرچہ اطلاعات کے اس دورانیے میں اس خطرے نے عملی صورت اختیار نہیں کی تاہم دہشت گردانہ سرگرمی کی شدت رکن ممالک کے لیے بدستور تشویشناک ہے۔

ٹیکنالوجی سے آگاہ دہشت گرد

داعش پروپیگنڈے اور بھرتیوں کے مقاصد کے لیے انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور ویڈیو گیمز کے ساتھ بغیر پائلٹ فضائی نظام یا ڈرون سمیت نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی سے بھی کام لے رہی ہے۔

اسی دوران، بچوں سمیت دہشت گردوں سے وابستہ بہت سے لوگ بدستور شمال مغربی شام میں قائم کیمپوں اور حراستی مراکز میں موجود ہیں۔

ولادیمیر وورنکوو نے سنگین حالات کی جانب توجہ دلاتے ہوئے دور رس نتائج اور ایسے افراد کی ان کے ممالک کو واپسی کی سست رفتار کے بارے میں متنبہ کیا۔

غیرملکی دہشت گردوں کا خطرہ

انہوں نے کہا کہ غیرملکی دہشت گرد جنگجوؤں کا مسئلہ صرف عراق اور شام سے ہی مخصوص نہیں بلکہ یہ پوری دنیا کا مسئلے ہے جس کے مضمرات جرائم پر احتساب اور قانونی کارروائی سے کہیں زیادہ ہیں۔

اپنے ممالک یا کسی تیسرے ملک میں واپس جانے والے ایسے دہشت گردوں نے خطرہ مزید بڑھا دیا ہے جن کے پاس جنگ لڑنے کا تجربہ ہے۔

ان کا کہنا تھا ''جیسا کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے، ایسے افراد کی جانب سے دہشت گرد حملے خالصتاً اندرون ملک سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کے حملوں کے مقابلے میں خاص طور پر مہلک ثابت ہوئے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ داعش سے وابستہ بعض بنیاد پرست خواتین نے بھرتی اور خاص طور پر بچوں کو دہشت گردی کی تعلیم دینے کا کردار سنبھال لیا ہے۔

حقوق پر مبنی حکمت عملی

ولاڈیمیر وورنکوو نے داعش اور اس سے ملحقہ گروہوں سے لاحق مستقل خطرے سے نمٹنے کے لیے تین سفارشات پیش کی ہیں۔

انہوں نے سلامتی اور دہشت گردی کی روک تھام کے اقدامات کے مابین ''مزید تکمیلی رابطے'' کے ساتھ کثیرالجہتی طریقہ ہائے کار اختیار کرنے کے لیے کہا ہے۔ ایسی حکمت عملی میں صںفی حساسیت کو مدنظر رکھ جانا چاہیے اور اس کی بنیاد بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق پر ہونی چاہیے۔

آخر میں، جنگ زدہ علاقوں سے لاحق بڑے خطرے کی موجودگی میں انہوں نے جنگ اور دہشت گردی کے مابین پیچیدہ تعلق کو بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا۔