انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ترقی پذیر ممالک کو قرضوں پر ’ناممکن سودے بازی‘ کا سامنا: سربراہ انکٹاڈ

اس سال مئی میں جب سری لنکا اپنے بین الاقوامی قرضوں کی قسط ادا نہ کر سکا تو عام لوگوں کے لیے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گیا۔
UN News/Daniel Johnson
اس سال مئی میں جب سری لنکا اپنے بین الاقوامی قرضوں کی قسط ادا نہ کر سکا تو عام لوگوں کے لیے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گیا۔

ترقی پذیر ممالک کو قرضوں پر ’ناممکن سودے بازی‘ کا سامنا: سربراہ انکٹاڈ

معاشی ترقی

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تجارت و ترقی کی سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک پر بڑھتے ہوئے قرض نے ان کے ہاں پائیدار ترقی کے مواقع کو نقصان پہنچایا ہے۔

جنیوا میں بات کرتے ہوئے ریبیکا گرینسپین نے کہا کہ ترقی پذیر اور کم آمدنی والے ممالک کو اپنا 70 سے 85 فیصد قرض غیرملکی کرنسی میں ادا کرنا ہوتا ہے۔

Tweet URL

ان کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے یہ ممالک بڑی کرنسی کی قدر میں اتار چڑھاؤ کے سامنے مالیاتی طور پر انتہائی غیرمحفوظ ہوتے ہیں جو ان کے ترقیاتی اخراجات کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں یہ مسئلہ اور بھی گمبھیر صورت اختیار کر گیا ہے جب لوگوں کو اپنی حکومتوں سے مالی مدد کی ضرورت ہے۔

قرض کے انتظام سے متعلق ادارے کی 13ویں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ریبیکا گرینسپین نے واضح کیا کہ اس سال طاقتور امریکی ڈالر کے مقابلے میں اب تک 88 ممالک کی کرنسیوں کی قدر میں کمی آئی ہے۔ عالمگیر معاشی گراوٹ کے اس دور میں تاحال بہت سے ممالک میں امریکی ڈالر تاحال 'ریزرو کرنسی' کی حیثیت رکھتا ہے۔

 ان میں سے 31 ممالک کی کرنسیوں کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 10 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔

قرض کا بوجھ صحت پر اخراجات کے برابر

یو این سی ٹی اے ڈی یا انکٹاڈ کی سربراہ کے مطابق اس کا بہت سے افریقی ممالک پر انتہائی منفی اثر پڑا ہے جہاں کرنسی کی قدر میں کمی کے باعث بطور قرض لی گئی رقم سے کہیں زیادہ ادائیگی کرنا پڑتی ہے اور یہ رقم اس براعظم میں صحت کے شعبے پر خرچ کیے جانے والے مجموعی مالی وسائل کے مساوی ہے۔

5 تا 7 دسمبر جنیوا میں اور آن لائن ہونے والا یہ اجلاس ایسے موقع پر منعقد ہوا ہے جب عالمگیر بحرانوں کی لہر نے بہت سے ترقی پذیر ممالک کو اپنے شہریوں کی مدد کے لیے مزید قرض لینے پر مجبور کر دیا ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ 2019 اور 2021 کے درمیان 100 سے زیادہ ترقی پذیر ممالک میں جی ڈی پی کے حصے کے طور پر حکومتی قرضوں کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔ چین کے علاوہ دیگر ممالک میں اندازاً یہ اضافہ تقریباً دو ٹریلین ڈالر ہے۔

گرینسپین نے کہا کہ ''اس کی وجہ کسی ملک کا برا طرزعمل نہیں ہے بلکہ اس کا سبب بہت سے ممالک کو بیک وقت لگنے والے معاشی جھٹکے ہیں۔''

شرح سود میں میں تیزی سے ہونے والے اضافے کے باعث قرض کا بحران خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں سرکاری مالیات پر بہت بڑا بوجھ ڈال رہا ہے جنہیں تعلیم، صحت اور اپنی معیشتوں پر نیز موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

قرض پائیدار ترقی میں رکاوٹ

انہوں ںے کہا کہ ''قرض پائیدار ترقی کے لیے 2030 کے ایجنڈے اور موسمیاتی منتقلی کے اہداف حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اسے رکاوٹ بننا چاہیے۔''

انکٹاڈ قرض کی ترتیب نو اور اس سے چھٹکارے کے لیے ایک کثیرالجہتی قانونی فریم ورک بنانے کی حمایت کرتا ہے۔

تمام قرض دہندگان کے تعاون سے قرض کے بحران کے بروقت اور منظم حل میں سہولت دینے کے لیے ایسے ہی فریم ورک کی ضرورت ہے جو 20 بڑی معیشتوں کے گروپ (جی20) کی جانب سے قرض میں کمی کے لیے بنائے گئے پروگراموں کو تقویت دے گا جسے مشترکہ فریم ورک بھی کہا جاتا ہے۔