انسانی کہانیاں عالمی تناظر

کاپ27: سب کو 2027 سے آفات بارے پیشگی اطلاعات پہنچانے کا منصوبہ

کم ترقی یافتہ ممالک میں نصف سے بھی کم اور جزیروں پر مشتمل ترقی پذیرچھوٹی ریاستوں میں صرف ایک تہائی کے پاس قدرتی آفات کا انتباہی نظام موجود ہے۔
UNDRR/Chris Huby
کم ترقی یافتہ ممالک میں نصف سے بھی کم اور جزیروں پر مشتمل ترقی پذیرچھوٹی ریاستوں میں صرف ایک تہائی کے پاس قدرتی آفات کا انتباہی نظام موجود ہے۔

کاپ27: سب کو 2027 سے آفات بارے پیشگی اطلاعات پہنچانے کا منصوبہ

موسم اور ماحول

جنگوں کے مقابلے میں موسمی آفات کہیں بڑے پیمانے پر لوگوں کو بے گھر کر رہی ہیں اور ایسے حالات میں سوموار کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل آئندہ پانچ سال میں کرہ ارض پر ہر انسان کو ان آفات سے یقینی طور پر محفوظ رکھنے کے لیے پیشگی انتباہی نظام کے ذریعے تحفظ دینے کے اپنے منصوبے کی تفصیلات سامنے لائے۔

تمام اقدامات کے لیے پیشگی انتباہی نظام سے متعلق انتظامی عملی منصوبے میں 2023 سے 2027 کے درمیان 3.1 ارب ڈالر کی نئی مخصوص سرمایہ کاری کی بات کی گئی ہے جو کہ ہر فرد کے لیے سالانہ صرف 50 سینٹ کے برابر بنتی ہے۔

Tweet URL

انتونیو گوتیرش نے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر مصر کے شہر شرم الشیخ میں جاری کاپ 27 کانفرنس میں حکومتوں اور اقوام متحدہ کے رہنماؤں، مالیاتی اداروں، بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں اور نجی شعبے کے ایک اجلاس میں اس منصوبے کا اعلان کیا۔

'ناگہانی' حملہ

انہوں نے بتایا کہ جن لوگوں کا موسمیاتی بحران پیدا کرنے میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے انہی کو اس بحران سے سب سے زیادہ خطرہ ہے اور وہی اس کے سامنے سب سے کم محفوظ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کا سامنا کرنے والی جگہوں پر غیرمحفوظ لوگوں کو ایک کے بعد دوسری موسمیاتی آفت کے ناگہانی حملوں کا سامنا ہے جبکہ ان کے پاس پیشگی انتباہ کے کوئی ذرائع بھی نہیں ہیں۔''

''افریقہ، جنوبی ایشیا، جنوب و وسطی امریکہ اور جزائر پر مشتمل چھوٹے ممالک کے لوگوں کو موسمی آفات کے نتیجے میں موت کا خطرہ دنیا کے دیگر لوگوں کی نسبت 15 گنا زیادہ ہے۔ یہ آفات جنگوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ لوگوں کو بے گھر کیے دیتی ہیں اور حالات بدترین صورت اختیار کر رہے ہیں۔''

'آگاہی کا کوئی راستہ نہیں'

گوتیرش کا کہنا تھا کہ اگرچہ پیشگی انتباہ کے نظام زندگیاں بچاتے ہیں لیکن غیرمحفوظ لوگوں کے پاس ''نقصان دہ موسم کے بارے میں پیشگی جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔''

''جن ممالک کے پاس پیشگی انتباہ کا محدود انتظام ہے وہاں قدرتی آفات سے اموات کی شرح ایسے ممالک سے آٹھ گنا زیادہ ہے جن کے پاس یہ نظام موجود ہیں۔ آج شروع کیا جانے والا عملی منصوبہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے اور لوگوں کی زندگیوں اور روزگار کو تحفظ دینے سے متعلق مستقبل کی راہ طے کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے پہلی مرتبہ اس سال مارچ میں پیشگی انتباہ کے ہدف کی بابت بتایا تھا۔

یہ منصوبہ قدرتی آفات سے لاحق خطرے کی سمجھ بوجھ، نگرانی اور پیش گوئی، فوری رابطوں اور تیاری و اقدامات میں پائی جانے والی اہم خامیوں کو دور کرتا ہے۔

چھوٹی سی قیمت کی ادائیگی

اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کے مطابق 3.1 ارب ڈالر ممالک اور لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مطابق ڈھالنے کے لیے مانگے جانے والے 50 ارب ڈالر کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو تقریباً چھ فیصد بنتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے اور شراکت داروں نے یہ منصوبہ تیار کیا ہے جسے 50 ممالک کے دستخطوں پر مشتمل ایک مشترکہ بیان کی حمایت حاصل تھی۔

ڈبلیو ایم او نے کہا کہ پیشگی انتباہ کے نظام کی فوری ضروررت ہے کیونکہ معلوم قدرتی آفات کی تعداد پانچ گنا بڑھ چکی ہے جس کا ایک حد تک سبب انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں آنے والی موسمیاتی تبدیلی اور پہلےسے زیادہ شدت کے حامل موسمی واقعات ہیں۔

اگرچہ اس رحجان کے جاری رہنے کی توقع ہے لیکن دنیا کے ںصف ممالک کے پاس پیشگی انتباہ کے نظام نہیں ہیں اور بہت کم ممالک کے پاس ہی پیشگی انتباہ کو ہنگامی منصوبوں سے جوڑنے کے لیے باضابطہ بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہونے والے ترقی پذیر ممالک میں یہ صورتحال اور بھی بدترین ہے جنہیں دنیا کے سب سے کم ترقی یافتہ ممالک (ایل ڈی سی) اور چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک (ایس آی ڈی سی) کہا جاتا ہے۔

آسان ہدف

ڈبلیو ایم او کے مطابق جب موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت اختیار کرنے کی بات ہو تو پیشگی آگاہی کے نظام کا حصول بہت آسان سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ مقابلتاً سستے ہوتے ہیں اور لوگوں اور املاک کو تحفظ دینے کا موثر طریقہ ہیں۔

مزید برآں مطابقت کے حوالے سے عالمی کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ایسے نظام پر محض 80کروڑ ڈالر خرچ کرنے سے سالانہ 3 سے 16 ارب ڈالر کے نقصان سے بچاؤ ممکن ہے۔

ڈبلیو ایم او کے سیکرٹریجنرل پیٹیری ٹالاس نے کہا ہے کہ ''ایسی پیش رفت جدید سائنس، موسمی مشاہدے کے پائیدار اور باقاعدہ نیٹ ورکس، معیاری معلومات کے روزانہ بین الاقوامی سطح پر تبادلے، پیشگی انتباہ کرنے والی معیاری اشیاتک رسائی، پیشگوئیوں کو اثرات میں تبدیل کیے جانے اور ٹیلی مواصلات میں ترقی کی بدولت ہی ممکن ہے۔

مشاورتی بورڈ

اقوام متحدہ، حکومتیں اور شراکت دار آئندہ پانچ سال میں پیشگی انتباہ کے ہدف کے حصول کے لیے باہم مل کر کام کریں گے۔

یہ منصوبہ اس حوالے سے ضروری ابتدائی اقدامات کا خلاصہ پیش کرتا ہے اور ان پر عملدرآمد کے لیے لائحہ عمل طے کرتا ہے۔

اس سلسلے میں موثر عملدرآمد کی غرض سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ایک مشاورتی بورڈ قائم کر رہے ہیں جس کی معاون سربراہی ڈبلیو ایم اور قدرتی آفات سے لاحق خطرات میں تخفیف سے متعلق اقوام متحدہ کے دفتر (یو این ڈی آر آر) کے سربراہوں کے پاس ہو گی۔

اس بورڈ کے ارکان میں ایسے بہت سے اہم شراکت دار شامل ہوں گے جنہوں ںے اب تک اس منصوبے کی تشکیل میں مدد دی ہے اور سیکرٹری جنرل آئندہ سالانہ کاپ اجلاسوں سے قبل اس بارے میں پیش رفت کی رپورٹ لیں گے۔