انسانی کہانیاں عالمی تناظر

اسرائیل اور فلسطین مقبوضہ مغربی کنارے میں امن کی بحالی کے اقدامات اٹھائیں

بچے مغربی کنارے کے مرکزی علاقے بیت سیرا میں ایک مسمار کیے گئے گھر کے پاس کھڑے ہیں۔
© UNOCHA
بچے مغربی کنارے کے مرکزی علاقے بیت سیرا میں ایک مسمار کیے گئے گھر کے پاس کھڑے ہیں۔

اسرائیل اور فلسطین مقبوضہ مغربی کنارے میں امن کی بحالی کے اقدامات اٹھائیں

امن اور سلامتی

مقبوضہ مغربی کنارے میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والا تشدد بے قابو ہو رہا ہے اور ایسے میں اسرائیل اور فلسطین کے رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ امن کی بحالی کے لیے ''عالمی برادری کی مکمل حمایت کے ساتھ'' ہرممکن اقدامات کریں۔ یہ بات خطے کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار نے کہی ہے۔

مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ٹور وینزلینڈ نے ان خیالات کا اظہار اسرائیلی سکیورٹی فورسز (آئی ایس ایف) اور فلسطینی جنگجوؤں کے مابین بڑھتی ہوئی مخاصمت کے تناظر میں کیا ہے جس کا نتیجہ اس ہفتے کے آغاز پر نابلوس میں آئی ایس ایف کے بڑے پیمانے پر چھاپوں کی صورت میں نکلا جن میں پانچ فلسطینی ہلاک اور 21 زخمی ہو گئے تھے۔

انہوں نے فریقین کی قیادت سے کہا کہ وہ ''یہ دیکھیں کہ ایسی صورتحال میں کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے اور اپنے دائرہ اختیار میں امن کی بحالی کے لیے تمام اقدامات اٹھائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ''بنیادی اہمیت کے سیاسی مسائل'' کو حل ہونا چاہیے وگرنہ گہری بداعتمادی اور دشمنی بڑھتی رہے گی۔ مجھے کئی دہائیوں پر مشتمل اسرائیلی قبضے کے نتیجے میں فلسطینیوں کی مایوسی اور غصہ واضح دکھائی دیتا ہے۔''

فوری مدد کی ضرورت

انہوں ںے مزید کہا کہ 1994 کے اوسلو معاہدوں کے تحت مغربی کنارے کی حکمران فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کو فوری معاشی مدد اور اپنا اختیار منوانے بشمول اپنے زیر اختیار علاقوں میں سلامتی قائم رکھنے کے لیے سیاسی گنجائش درکار ہے۔

انہوں نے سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے سفیروں سے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں بہت سے لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد فلسطینیوں کی ہے۔ ان حالات میں ''بڑھتی ہوئی ناامیدی، غصے اور تناؤ'' کا ماحول بننے لگا ہے جس سے تشدد کا مہلک سلسلہ مزید زور پکڑ رہا ہے اور اس پر قابو پانا روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''کئی دہائیوں سے جاری تشدد اور اسرائیل و فلسطین دونوں کے شہریوں کو اس سے ہونے والے نقصان نیز فریقین میں طویل عرصہ سے بامعنی بات چیت کی عدم موجودگی اور اہم مسائل کو حل کرنے کے عزم کے فقدان سے اس تنازعے کو ہوا مل رہی ہے اور حالات کی خرابی کے لیے سازگار فضا پیدا ہوئی ہے۔''

مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ٹور وینزلینڈ سلامتی کونسل کو فلسطین سمیت مشرق  وسطیٰ کی صورتحال بارے آگاہ کر رہے ہیں۔
UN Photo/Manuel Elías
مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ٹور وینزلینڈ سلامتی کونسل کو فلسطین سمیت مشرق وسطیٰ کی صورتحال بارے آگاہ کر رہے ہیں۔

'پُرعزم اقدام' کی ضرورت

ان کا کہنا تھا کہ انہوں ںے مغربی کنارے، غزہ اور اسرائیل میں تمام فریقین سمیت وسیع تر عالمی برادری سے اس بارے میں بات کی ہے اور ہر ایک کو یکساں اور واضح پیغام دیا ہے کہ:

صورتحال کو معمول پر لانے اور عملی طور پر منفی رحجانات کا رخ موڑنے کے لیے کام کرنا ہنگامی ترجیح ہے۔ اس مقصد کے لیے فریقین کی جانب سے ایسے پرعزم اقدامات درکار ہوں گے جنہیں بین الاقوامی براری کی حمایت حاصل ہو۔''

تاہم محصور فسلطینی اتھارٹی کو مدد کی ضرورت ہے تاکہ وہ سیاسی عمل کی جانب واپس آ سکے۔

انہوں ںے کہا کہ ''پُرتشدد تناؤ میں اضافے کی علامات اور اس کی بنیادی وجوہات پر قابو پانے کی حکمت عملی کے اطلاق میں ناکامی کی صورت میں پہلے ہی تباہ کن رخ اختیار کرتی صورتحال مزید بدتر ہو جائے گی۔''

ہلاک و زخمی ہونے والے فلسطینی

وینز لینڈ نے کہا کہ انہیں گزشتہ تین ماہ کے عرصہ میں مقبوضہ مغربی کنارے میں شدید تشدد پر تشویش ہے اور انہوں نے اس حوالے سے تقریباً روزانہ پیش آنے والے واقعات کی فہرست تیار کی ہے۔

اس فہرست کے مطابق مظاہروں، لڑائیوں، تلاشی اور گرفتاری کی کارروائیوں، حملوں، اسرائیل کے خلاف مبینہ حملوں اور دیگر واقعات کے دوران اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مجموعی طور پر 32 فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں چھ بچے بھی شامل ہیں۔

انہوں ںے بتایا کہ ان واقعات میں ایک عورت اور آٹھ بچوں سمیت 311 فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی آباد کاروں یا اس کے دیگر شہریوں نے فلسطینیوں کے خلاف 106 حملوں کا ارتکاب کیا جن کے نتیجے میں 63 افراد زخمی ہوئے اور/یا فلسطینی املاک کو نقصان پہنچا۔

اسرائیل کا نقصان

فلسطینیوں کی جانب سے فائرنگ، پرہجوم حملوں، لڑائیوں، پتھراؤ اور مولوٹوو کاک ٹیل سے کیے جانے والے حملوں اور دیگر واقعات میں مجموعی طور پر اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے دو اہلکار ہلاک اور پانچ خواتین اور تین بچوں سمیت اسرائیل کے 25 شہری اور سکیورٹی فورسز کے 13 اہلکار زخمی ہوئے۔

مجموعی طور پر فلسطینیوں نے اسرائیلی شہریوں کے خلاف 115 حملے کیے جن میں پتھراؤ کے 100 واقعات کے نتیجے میں اسرائیلی زخمی ہوئے اور/یا ان کی املاک کو نقصان پہنچا۔

مہلک ترین سال

اقوام متحدہ کے امدادی امور کے دفتر (او سی ایچ اے) کی جانب سے 2005 میں فلسطینیوں کے جانی نقصان کے باقاعدہ جائزے کا آغاز ہونے کے بعد 2022 اب تک فلسطینی شہریوں کے لیے مہلک ترین سال ثابت ہو رہا ہے۔

انہوں ںے سفیروں کو بتایا کہ اس عرصہ میں اسرائیلی آباد کاروں کے تشدد اور ان کی جانب سے اشتعال انگیز کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جس سے مغربی کنارے کے قصبات میں تشدد کو ہوا ملی ہے۔

انہوں  ںے کہا کہ اس عرصہ میں اسرائیلی فورسز نے دو مختلف واقعات کے بارے میں تحقیقات شروع کیں جن میں اس کے فوجی فسلطینیوں کے خلاف پُرتشدد حملوں یا فلسطینیوں کے گھروں پر فائرنگ میں ملوث پائے گئے تھے۔

خصوصی رابطہ کار کا کہنا تھا کہ ''میں نے زور دیا کہ ہر طرح کے تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کا محاسبہ ہونا چاہیے اور سکیورٹی فورسز زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور زندگیوں کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئےمہلک طاقت اسی صورت میں استعمال کریں جب ایسا کرنا انتہائی ناگزیر ہو جائے۔''

بچوں کی اموات پر تشویش

انہوں نے واضح کیا کہ ایسے واقعات میں بچے اور انتہائی غیرمحفوظ افراد بھی ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''مجھے تشویش ہے کہ بچے بھی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ بچوں کو تشدد اور نقصان کا ہدف نہیں بنانا چاہیے۔''

فلسطینیوں کی ملکیتی عمارتوں کا انہدام بھی جاری ہے۔ ایریا سی میں ایسے 38 اور مشرقی یروشلم میں تین واقعات پیش آئے ہیں جن میں 26 خواتین اور 47 بچوں سمیت 81 فلسطینی بے گھر ہو گئے ہیں۔ ان عمارتوں کو اس لیے منہدم کیا گیا کیونکہ ان کے مالکان کے پاس اپنی عمارتوں کے لیے اسرائیل کی جانب سے جاری کردہ اجازت نامے نہیں تھے جن کا حصول فلسطینیوں کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔

مثبت پیش رفت

انہوں نے کہا کہ اس عرصہ میں ''بعض مثبت پیش ہائے رفت'' بھی ہوئی ہیں۔ ان میں اسرائیل اور فلسطین کے اعلیٰ سطحی عہدیداروں کے مابین ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ مغربی کنارے میں الفتح اور غزہ میں حماس کے رہنماؤں کے مابین مسلسل اختلاف کے تناظر میں اس ماہ فلسطینی رہنماؤں کے مابین الجزائر میں بات چیت کا انعقاد ہوا۔

اس بات چیت کے نتیجے میں فتح اور حماس سمیت فلسطینیوں کے 14 دھڑوں نے الجزائر اعلامیے پر دستخط کیے۔

وینیس لینڈ نے بتایا کہ ''اس اعلامیے میں فلسطینی دھڑوں نے دیگر امور کے علاوہ 'فلسطینی تنظیم آزادی' کو فلسطینی عوام کی واحد قانونی نمائندہ تنظیم کے طور پر قبول کیا اور فلسطینی اتھارٹی، فلسطینی قانون ساز کونسل اور فلسطینی نیشنل کونسل کے انتخابات کرانے پر اتفاق کیا۔''

تاہم ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر پورے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں امدادی اقدامات کو بدستور ''مالی وسائل کی دائمی قلت'' کا سامنا ہے۔

سمندری امور پر پیش رفت

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور دیگر اعلیٰ حکام کے ساتھ انہوں ںے منگل کو لبنان اور اسرائیل کے مابین امریکہ کی ثالثی میں ایک معاہدہ طے پانے کا خیرمقدم بھی کیا جس کے نتیجے میں سمندری حدود کے حوالے سے کئی دہائیوں سے چلا آ رہا تنازع ختم ہو گیا ہے۔

اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ''یہ ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے اور مجھے امید ہے کہ اس سے خطے میں مزید استحکام کو فروغ ملے گا۔ اس موقع پر میں نے لبنان میں نئی حکومت کے قیام اور ملک کے آئینی ڈھانچے کی مطابقت سے نیا صدر منتخب کرنے کی اہمیت بھی واضح کی۔''

Tweet URL

1967 کی سرحدی حدود پر دو ریاستی حل

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ فعال طور سے رابطے میں ہے اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں، بین الاقوامی قانون اور دوطرفہ معاہدوں کی مطابقت سے فلسطینی علاقوں پر قبضہ ختم کرانے اور 1967 کی سرحدی حدود کی بنیاد پر مسئلے کا دو ریاستی حل ممکن بنا کر اس تنازعےکو حل کرنے کے لیے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی مدد کا عزم رکھتا ہے۔