انسانی کہانیاں عالمی تناظر

شام: امن کے لیے سیاسی حل کی طرف حقیقی پیش رفت کی ضرورت، گیئر پیڈرسن

سال دوہزار تیئس کے شروع میں شام میں تباہ کن زلزلہ آیا جس سے ملک میں انسانی بحران مزید گھمبر صورتحال اختیار کر گیا۔
© UNICEF/OCHA/Madevi Sun-Suon
سال دوہزار تیئس کے شروع میں شام میں تباہ کن زلزلہ آیا جس سے ملک میں انسانی بحران مزید گھمبر صورتحال اختیار کر گیا۔

شام: امن کے لیے سیاسی حل کی طرف حقیقی پیش رفت کی ضرورت، گیئر پیڈرسن

امن اور سلامتی

شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے گیئر پیڈرسن نے خبردار کیا ہے کہ شام میں کشیدگی دوبارہ بڑھ رہی ہے اور علاقائی تنازعات کے باعث ملک کو درپیش مسائل میں اضافے کا خدشہ ہے۔

انہوں نے سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اگرچہ ملک میں سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لیے سفارتی محاذ پر کچھ پیش رفت ضرور ہوئی ہے تاہم اس سے شام کے لوگوں کو عملی طور پر کچھ زیادہ فائدہ نہیں پہنچا۔

Tweet URL

ان کا کہنا ہے کہ تباہ کن زلزلوں، بڑھتی ہوئی انسانی ضروریات اور شدید لڑائی کے باعث 2023 ملک کے لیے مشکل سال رہا۔ وسیع پیمانے پر ہلاکتوں، بے گھری، اغوا اور قید و بند جیسے مسائل کے بعد اب شام کے لوگوں کو مشرق وسطیٰ کے تنازع کے باعث مزید مصائب کا شکار ہونے کا خدشہ ہے۔

بدترین ہوتے حالات 

گیئر پیڈرسن نے بتایا کہ گزشتہ ہفتوں کے دوران شام بھر میں متعدد فضائی حملے ہوئے جن کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا گیا ہے۔ ان حملوں میں دمشق اور حلب کے ہوائی اڈے غیرفعال ہو گئے ہیں۔ اس وقت صرف لاطاکیہ کا ہوائی اڈہ ہی تجارتی پروازوں کی آمدورفت اور اقوام متحدہ کی امدادی کارروائیوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ 

جنوبی شام سے اسرائیل کی جانب مقبوضہ گولان میں میزائل داغے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ اس کے علاوہ شمال مشرقی شام میں امریکہ کی عسکری تنصیبات پر بھی تقریباً روزانہ حملے ہو رہے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ شام میں خانہ جنگی بھی بدستور جاری ہے اور بعض علاقوں میں اس میں شدت آنے اور شہریوں کی ہلاکت کے بارے میں تشویش ناک اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ 

تحمل سے کام لینے کا مطالبہ

انہوں نے خبردار کیا کہ کسی کو یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس وقت جاری تناؤ میں مزید اضافہ نہیں ہو گا۔ اس کے بجائے کشیدگی بڑھنے کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔

شام اور غیرشامی کرداروں کے لیے تحمل اختیار کرنے کی ضرورت کو واضح کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کشیدگی سے نمٹنے، ملک گیر جنگ بندی اور اقوام متحدہ کی جانب سے نامزد دہشت گرد گروہوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے شامی تنازع کے تمام کرداروں پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کا مکمل احترام کریں اور شہریوں اور شہری تنصیبات کا تحفظ یقینی بنائیں۔

گولان کی پہاڑیوں پر اقوام متحدہ کے امن دستے گشت کر رہے ہیں (فائل فوٹو)۔
UN Photo/Wolfgang Grebien
گولان کی پہاڑیوں پر اقوام متحدہ کے امن دستے گشت کر رہے ہیں (فائل فوٹو)۔

ناپائیدار صورت حال

خصوصی نمائندے کا کہنا تھا کہ شام میں بڑھتا ہوا تشدد، مایوسی اور مظاہرے دنیا کے لیے یہ یاد دہانی ہونے چاہئیں کہ صورتحال جوں کی توں نہیں رہ سکتی۔ 

انہوں نے شام میں درپیش مسائل کو ایسے تنازع کی علامات قرار دیا جن پر کوئی ایک کردار یا کرداروں کا گروہ اکیلے قابو نہیں پا سکتا۔ انہوں نے ایسے سیاسی عمل کی ضرورت پر زور دیا جس کے ذریعے مسئلے کے حل کی جانب حقیقی پیش رفت ممکن ہو سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس تنازع سے لاپروائی نہیں برتی جا سکتی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شام کے لوگوں کی مایوسی کو ختم کرنے اور تنازع کو پائیدار طور سے حل کرنے کے لیے جزوی اقدامات کافی نہیں۔

سرحد پار امداد کی ناگزیر ضرورت

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) میں امدادی مالی وسائل اور ذرائع کے انتظام کی ڈائریکٹر لیزا ڈوٹن نے بھی سلامتی کونسل کو بریفنگ دی۔ انہوں نے بتایا کہ لڑائی میں شدت آنے کے باعث سرحد پار امدادی اقدامات شمال مغربی شام کے چالیس لاکھ سے زیادہ لوگوں کی واحد امید ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں سال شام کے لیے درکار امدادی وسائل میں سے 33 فیصد ہی مہیا ہو پائے ہیں۔ اس مقصد کے لیے 5.4 ارب ڈالر کی ضرورت تھی جن میں سے تاحال 1.8 ارب ڈالر کی فراہمی ممکن ہو سکی ہے۔

دریں اثنا، سلامتی کونسل نے شام اور اسرائیل کے مابین کشیدگی کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی مشاہدہ کار فورس (یو این ڈی او ایف) کی ذمہ داریوں میں 30 جون 2024 تک توسیع کر دی ہے۔