یوکرین اناج معاہدہ اور ایتھوپیا سمجھوتہ 'کثیرفریقی سفارتکاری' کی طاقت کا ثبوت ہیں: گوتیرش
اقوام متحدہ کے سربراہ نے دنیا بھر کے ممالک سے مصر میں ہونے والی کاپ 27 موسمیاتی کانفرنس میں شمال اور جنوب کے مابین اعتماد کی بحالی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ روس کی بحیرہ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کے معاہدے میں دوبارہ شمولیت اور ٹیگرے میں جنگ بندی کے ایتھوپیائی معاہدے سے کثیرفریقی سفارتکاری کی طاقت کا اظہار ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے یہ بات نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں کہی۔ انہوں نے اپنی بات کا آغاز اس اعلان سے کیا کہ یوکرین سے بنیادی ضرورت کی خوراک کی برآمد کے معاہدے نے ''ایک نیا سنگِ میل'' عبور کر لیا ہے کہ اس معاہدے کے تحت بحیرہ اسود میں امدادی راہداری کے ذریعے صرف تین ہی مہینوں میں 10 ملین میٹرک ٹن تک خوراک کی ترسیل ہو چکی ہے۔
I am pleased to announce that, today, the Black Sea Grain Initiative has hit a new milestone.
As of today, ten million metric tonnes of grain and other foodstuffs have been shipped through the Black Sea corridor - @antonioguterres https://t.co/inFrBaQr8H
UN_Spokesperson
'امید کا چراغ روشن ہے'
انہوں نے کہا کہ ''ہمیں اب تک درپیش تمام تر مشکلات کے باوجود بحیرہ اسود میں امید کا چراغ بدستور روشن ہے اور اناج کی ترسیل کا اقدام فعال ہے۔''
گوتیرش کا کہنا تھا کہ اب جبکہ روس اس معاہدے میں واپس آ گیا ہے اور بحری جہاز یوکرین کی تین بندرگاہوں سے دوبارہ روانہ ہونے لگے ہیں، جن کے ذریعے انسانی خوراک پر مشتمل بیشتر سامان ضرورت مند ترقی پذیر ممالک کو بھیجا جا رہا ہے، تو ایسے میں مستقبل کے حوالے سے ان کی دو ترجیحات ہیں۔
ان میں پہلی ''اس معاہدے کی تجدید اور اس پر مکمل عملدرآمد'' اور دوسری روس سے خوراک اور انتہائی ضروری کھادوں کی برآمد کی راہ میں حائل بقیہ رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔
انہوں نے ''کھاد کی عالمی منڈی میں بحران'' پر فوری قابو پانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اور اقوام متحدہ دونوں ان مقاصد کے حصول کے لیے پوری طرح پُرعزم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ''ہم عالمی سطح پر کھادوں کی دستیابی میں حائل مسائل کو عالمگیر غذائی قلت کا سبب بننے نہیں دیں گے۔
پُرعزم سفارت کاری
انہوں ںے کہا کہ ''اناج کے معاہدے اور جنگ زدہ ٹیگرے میں لڑائی بند کرنے اور وہاں امداد پہنچانے کی اجازت دینے سے متعلق ایتھوپیا کے حکام اور ٹیگرے کے باغیوں کے مابین قانونی سمجھوتے پر دستخط سے ناصرف کثیرفریقی اقدامات بلکہ ''جداگانہ مگر متعین سفارت کاری کی اہمیت'' بھی واضح ہوئی۔''
مصر کے شہر شرم الشیخ میں اس ہفتے شروع ہونے والی اقوام متحدہ کی اہم موسمیاتی کانفرنس کی جانب توجہ دلاتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ یہ ''ہماری زمین کو موسمیاتی تباہی سے بچانے کے لیے اعتماد اور عزم کی بحالی'' کا موقع ہو گا۔
اس صدی کے اختتام پر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج عالمی حدت میں اضافے کو 2.8 ڈگری سیلسیئس کی سطح پر لے جائے گا جو کہ 1.5 ڈگری یا اس سے نیچے کی ضروری اور متفقہ حد سے بہت زیادہ ہو گا۔
تاریخی معاہدہ
ان کا کہنا تھا کہ ''اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری زمین ایسے حالات کی جانب بڑھ رہی ہے جو موسمیاتی تباہی کا ازالہ ناممکن بنا دیں گے اور درجہ حرارت میں تباہ کن اضافہ ہمیشہ جاری رہے گا۔''
انہوں ںے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دنیا کے مابین ایک ''تاریخی معاہدے'' پر زور دیا جس میں امیر ممالک کی ذمہ داری ہو کہ وہ پیرس معاہدے میں طے کردہ 1.5 ڈگری کے ہدف تک پہنچنے کے اپنے وعدوں کی تکمیل کریں۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ ''کاپ 27 میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے عزائم، اس مسئلے پر قابو پانے کے معاملے میں ممالک کی ساکھ اور باہمی یکجہتی میں پائی جانے والی کمی کو دور کرنا ہو گا۔''
انہوں ںے صحافیوں کو بتایا کہ ''جو لوگ ترقی پذیر دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث 'نقصان اور اس کے ازالے' کی اہمیت سے انکار کرتے ہیں انہیں پاکستان میں آںے والے تباہ کن سیلاب کو مدنظر رکھنا چاہیے۔'' ان کا مزید کہنا تھا کہ 'نقصان اور ازالے' کے معاملے میں ٹھوس نتائج کا حصول ایسی ہر کمی کو دور کرنے میں مدد دینے کے لیے حکومتوں کے عزائم کا امتحان ہو گا۔''