انسانی کہانیاں عالمی تناظر

گوتیرش کا بڑھتی عالمی حدت کے مسئلے سے نمٹنے کے اقدامات پر زور

عالمی ادارہ محنت کے مطابق دنیا بھر کی 70 فیصد افرادی قوت یا 2.4 ارب لوگوں کو شدید گرمی سے نمایاں خطرات لاحق ہیں۔
© Unsplash/Timo Volz
عالمی ادارہ محنت کے مطابق دنیا بھر کی 70 فیصد افرادی قوت یا 2.4 ارب لوگوں کو شدید گرمی سے نمایاں خطرات لاحق ہیں۔

گوتیرش کا بڑھتی عالمی حدت کے مسئلے سے نمٹنے کے اقدامات پر زور

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے دنیا بھر کے لوگوں کو شدید گرمی کے تباہ کن اثرات سے تحفظ دینے کے لیے فوری اقدامات پر زور دیا ہے جبکہ عالمی حدت میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر (نیویارک) میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ دنیا کے بہت سے حصوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیئس سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ اربوں لوگ ناقابل برداشت گرمی میں زندگی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ شدید حدت لوگوں اور کرہ ارض پر شدید اثرات مرتب کر رہی ہے اور دنیا کو اس مسئلے پر فوری قابو پانا ہو گا۔

Tweet URL

سیکرٹری جنرل نے یہ بات ایسے موقع پر کہی ہے جب رواں موسم گرما میں امریکہ سے افریقہ کے ساہل خطے اور مشرق وسطیٰ تک سیکڑوں افراد گرمی سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ امسال سعودی عرب میں حج کے موقع پر شدید گرمی نے 1,300 سے زیادہ لوگوں کی جان لے لی تھی۔

گرمی، بدحالی اور اموات

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اگرچہ گرمی ہر جگہ ہے لیکن سبھی اس سے یکساں طور پر متاثر نہیں ہوتے۔ شہری علاقوں میں رہنے والے غریب لوگ، حاملہ خواتین، بچے، معمر افراد، معذور ، بیمار، بے گھر اور پسماندہ بستیوں میں رہنے والے لوگ گرمی سے دوسروں کی نسبت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق دنیا میں بچوں کی 25 فیصد آبادی تواتر سے گرمی کی شدید لہروں کا سامنا کرتی ہے جبکہ 2050 میں تمام بچوں کو انہی حالات کا سامنا ہو سکتا ہے۔گزشتہ دو دہائیوں میں 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں گرمی سے ہونے والی اموات میں 85 فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے۔

سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ماحول کو ٹھنڈا رکھنے کے ایسے ذرائع سے کام لینا ہو گا جن کے استعمال میں کاربن کا اخراج کم سے کم ہو۔ علاوہ ازیں لوگوں کو موسمیاتی ابتری سے تحفظ دینے کے لیے فراہم کیے جانے والے مالی وسائل کا حجم بھی بڑھانا ہو گا۔

محنت کشوں کا تحفظ

انتونیو گوتیرش نے بڑھتی ہوئی گرمی میں محنت کشوں کا تحفظ بہتر بنانے کے اقدامات کی ضرورت بھی واضح کی ہے۔ عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے مطابق دنیا بھر کی 70 فیصد افرادی قوت یا 2.4 ارب لوگوں کو شدید گرمی سے نمایاں خطرات لاحق ہیں۔

ادارے کی جاری کردہ نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ صورتحال افریقہ اور عرب ممالک میں خاص طور پر مخدوش ہے جہاں بالترتیب 90 اور 80 فیصد سے زیادہ محنت کشوں کو شدید گرمی میں کام کرنا پڑتا ہے۔ ایشیا اور الکاہل دنیا کے گنجان ترین حصے ہیں جہاں 75 فیصد محنت کشوں کو اس صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، کام پر گرمی کے اثرات سے ہونے والے نقصان کا حجم 2030 تک 2.4 ٹریلین ڈالر ہو جائے گا جو 1990 کی دہائی کے وسط میں 280 بلین تھا۔

سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ اس معاملے میں انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے محنت کشوں کو تحفظ دینا ہو گا اور یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ قوانین اور ضوابط آج کی سخت گرمی کی حقیقت کے عکاس ہوں۔

جامع منصوبہ بندی

سیکرٹری جنرل نے گرمی کے نتیجے میں بنیادی ڈھانچے کے نقصان، فصلیں ضائع ہونے، پانی کی ترسیل، نظام صحت اور بجلی کے گرڈ پر دباؤ میں اضافے جیسے اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے معیشتوں اور معاشروں کو مضبوط بنانے کی ضرورت بھی واضح کی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ان مسائل پر قابو پانے کے لیے جامع اور مخصوص منصوبے شروع کرنا ہوں گے جن کی بنیاد ممالک، شہروں اور شعبوں کے لیے ضروری معلومات پر ہو۔ دنیا کو گرمی سے تحفظ دینے والی معیشتیں اور ماحول درکار ہے۔

معدنی ایندھن کا مسئلہ

سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ شدید گرمی کے پیچھے طوفانوں، سیلابوں، خشک سالی، جنگلوں کی آگ اور بڑھتے سمندری درجہ حرارت جیسی بہت سی علامات کو پہچاننا ضروری ہے۔

بنیادی مسئلہ یہ ہےکہ دنیا تاحال معدنی ایندھن پر انحصار کر رہی ہے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ خاص طور پر جی20 ممالک کی حکومتوں، نجی شعبے، شہروں اور خطوں کو عالمی حدت میں اضافہ 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے لیے فوری مںصوبہ بندی کرنا ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ ممالک کو معدنی ایندھن پر انحصار بتدریج کم کرنا ہو گا اور کوئلے سے توانائی حاصل کرنے کے نئے منصوبے ختم کرنا ہوں گے کیونکہ انسانیت کے مستقبل کا دارومدار اسی پر ہے۔