انسانی کہانیاں عالمی تناظر

اے آئی اور کرپٹو کرنسی مائننگ کے ماحول پر ’برے اثرات‘، یو این ادارہ

کرپٹو کرنسی اور کرپٹو مائننگ جیسی ٹیکنالوجی کی وجہ سے توانائی کے خرچ میں بہت بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گیا ہے۔
Unsplash/André François McKenz
کرپٹو کرنسی اور کرپٹو مائننگ جیسی ٹیکنالوجی کی وجہ سے توانائی کے خرچ میں بہت بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گیا ہے۔

اے آئی اور کرپٹو کرنسی مائننگ کے ماحول پر ’برے اثرات‘، یو این ادارہ

موسم اور ماحول

کیا آپ جانتے ہیں کہ دو کلوگرام وزنی کمپیوٹر تیار کرنے میں 800 کلوگرام خام مال استعمال ہوتا ہے؟ یا گزشتہ سال بٹ کوائن کی ڈیٹا مائننگ کے لیے درکار توانائی کی مقدار 121 ٹیرا واٹ تک پہنچ گئی تھی جو چھوٹے ممالک میں ہر سال استعمال والی توانائی سے بھی زیادہ ہے۔

یہ انکشافات اقوام متحدہ کے ادارہ تجارت و ترقی (انکٹاڈ) کی جانب سے ڈیجیٹل معیشت پر جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں سامنے آئے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ تیزی سے فروغ پاتے اس شعبے کے ماحول پر مرتب ہونے اولے منفی اثرات کو مزید سنجیدگی سے لینا اور قابل تجدید توانائی پر سرمایہ کاری کے ذریعے ان کی رفتار کو سست کرنا ضروری ہے۔

Tweet URL

'انکٹاڈ' کی سیکرٹری جنرل ریبیکا گرینسپین نے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت، کرپٹو کرنسی اور کرپٹو مائننگ جیسی ٹیکنالوجی کے ظہور سے توانائی کے خرچ میں بہت بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گیا ہے۔

ای کامرس کا فروغ

ریبیکا گرینسپین نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ 2015 اور 2020 کے درمیان بٹ کوائن کی مائننگ میں خرچ ہونے والی توانائی کی مقدار میں 34 فیصد تک اضافہ ہوا جو 121 ٹیرا وائٹ تک پہنچ گئی تھی۔ اس توانائی کی سالانہ مقدار بیلجیئم اور فن لینڈ جیسے ممالک میں ہر سال خرچ کی جانے والی توانائی سے بھی زیادہ ہے۔

آج دنیا بھر میں 5.4 ارب لوگ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور عالمگیر ڈیجیٹل معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے جس سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ اس معیشت کی قدر کو ہی دیکھا جائے تو 2022 میں 43 ممالک میں ای کامرس کے ذریعے 27 ٹریلین ڈالر کی خرید و فروخت ہوئی جبکہ 2016 میں اس تجارت کا حجم 17 ٹریلین ڈالر تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں بہت سی باتیں ہوتی ہیں کہ کیسے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کاغذ کے استعمال میں کمی لاسکتی ہے، اس سے توانائی کی استعداد میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور یہ نقل و حمل، تعمیرات، زراعت اور توانائی کے شعبے سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔

لیکن اس کے منفی رخ پر کم ہی بات ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن کا عمل بڑی حد تک 'مادی' ہے اور اس کے لیے بڑی مقدار میں ایسی توانائی استعمال ہوتی ہے جس کا کاربن کے اخراج میں نمایاں ترین کردار ہے۔

ماحول کو لاحق اس خطرے سے نمٹنے اور ٹیکنالوجی کو مساوی اور ماحولیاتی اعتبار سے ذمہ دارانہ بنانے کے لیے 'انکٹاڈ' کی اس رپورٹ میں پالیسی کے حوالے سے متعدد تجاویز دی گئی ہیں جو موبائل فون سمیت الیکٹرانک آلات کی تیاری میں استعمال ہونے والی قیمتی دھاتوں سے لے کر پانی جیسے دیگر اہم قدرتی وسائل تک بہت سے چیزوں کا احاطہ کرتی ہیں۔

توانائی کی طلب

'انکٹاڈ' کے مطابق 2022 میں دنیا بھر کے ڈیٹا مراکز نے 460 ٹیرا واٹ آور توانائی استعمال کی جو کہ امریکہ میں ایک سال کے دوران چار کروڑ 20 لاکھ گھروں میں استعمال ہونے والی بجلی کے برابر ہے۔ متوقع طور پر 2026 تک یہ مقدار دو گنا بڑھ جائے گی۔

ادارے نے بتایا ہے کہ عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ڈیجیٹل شعبے کا حصہ 1.5 سے 3.2 فیصد تک ہے جو کہ نقل و حمل اور جہاز رانی سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کے برابر ہے۔

2018 اور 2022 کے درمیانی عرصہ میں 13 بڑے ڈیٹا سنٹر آپریٹروں کے توانائی کے خرچ میں دو گنا سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اس سے ٹیکنالوجی کے اس شعبے میں توانائی اور پانی کے خرچ سے مسئلے سے نمٹنے کی ہنگامی ضرورت واضح ہوتی ہے۔

گرینسپین نے کہا ہے کہ گوگل نے انکشاف کیا تھا کہ 2022 میں اس کے ڈیٹا مراکز اور دفاتر میں 5.6 ارب گیلن (21.2 ملین کیوبک میٹر) پانی استعمال ہوا۔ اسی برس مائیکروسافٹ نے بتایا کہ اس کے ہاں 6.4 ملین کیوبک میٹر پانی استعمال کیا گیا۔ حالیہ دنوں متعدد ممالک میں واقع ایسے مراکز میں پانی کے بڑی مقدار میں استعمال نے مقامی لوگوں میں تشویش اور تناؤ کو جنم دیا ہے۔

مائیکروسافٹ کے مطابق صرف چیٹ جی پی ٹی۔3 کی تیاری کے لیے ہی سات لاکھ گیلن صاف اور تازہ پانی کی ضرورت ہو گی۔

الیکٹرانک فضلہ ماحول کے لیے دنیا میں تیزی سے بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔
WHO

ای فضلے میں اضافہ

رپورٹ کے مطابق، 2000 میں آن لائن خریداری کرنے والوں کی تعداد 10 کروڑ تھی جو 2021 میں 2.3 ارب تک جا پہنچی۔ اس اضافے کے نتیجے میں 2010 سے 2022 کے درمیان ڈیجیٹل سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے فضلے یا کچرے کی مقدار 10 کروڑ 50 لاکھ ٹن تک پہنچ گئی تھی۔

گرینسپین کا کہنا ہے کہ اس فضلے کو ٹھکانے لگانے کا انتظام بھی ناکافی ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی آلودگی اور ماحول پر اس کے اثرات کو دیکھا جائے تو یہ مسئلہ سنگین تشویش کا باعث ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ہر سال فی کس 3.25 کلو گرام ڈیجیٹل فضلہ پیدا کرتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں اس کی مقدار ایک کلوگرم سے کم اور کم ترین ترقی یافتہ ممالک میں 0.21 کلوگرام تک ہے۔ اس سے ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کی غیرمساوی تقسیم کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

اہم معدنیات

رپورٹ میں عالمی بینک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن کے لیے درکار گریفائٹ، لیتھیم اور کوبالٹ جیسی معدنیات کی مانگ میں 2050 تک 500 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔

ترقی پذیر ممالک کا ایسی معدنیات اور دھاتوں کی ترسیل کے عالمگیر نظام میں اہم کردار ہے جو زیادہ تر چند خطوں میں واقع ہیں۔ مثال کے طور پر دنیا کی کم کاربن والی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی جانب منتقلی کے لیے لازمی اہمیت کی حامل کوبالٹ، تانبے اور لیتھیم جیسی دھاتوں کے وسیع ذخائر افریقہ میں واقع ہیں۔ یہ دھاتیں پائیدار توانائی کے مستقبل کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہیں۔

دنیا کا 55 فیصد کوبالٹ، 47.65 فیصد مینگنیز، 21.6 فیصد قدرتی گریفائٹ، 5.9 فیصد تانبا، 5.6 فیصد نکل اور ایک فیصد لیتھیم اسی براعظم میں پایا جاتا ہے۔

ترقی کے مواقع

ان اہم معدنیات کی بڑھتی ہوئی طلب باوسائل ترقی پذیر ممالک کے لیے ان کی قدر میں اضافے کا موقع ہے۔ اس طرح وہ اپنی معیشت کو متنوع بنا سکتے ہیں اور ترقی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ تاہم، گرینسپین کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے انہیں ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ساتھ ان کا ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے مقاصد کے ساتھ موثر طور سے مطابقت پیدا کرنا ضروری ہے۔

موجودہ عالمگیر مسائل، محدود مالیاتی گنجائش، سست رو ترقی اور بھاری قرضوں کے باعث ترقی پذیر ممالک کو اندرون ملک پراسیسنگ اور صنعت کاری کے ذریعے اس موقع کو زیادہ سے زیادہ کام میں لانے کی ضرورت ہو گی۔ اس سے انہیں عالمگیر ڈیجیٹل معیشت میں بڑا حصہ لینے، حکومتوں کو آمدنی پیدا کرنے، ترقیاتی کاموں پر مالی وسائل خرچ کرنے، اشیا کی فروخت پر انحصار ختم کرنے، روزگار تخلیق کرنے اور رہن سہن کا معیار بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ڈیجیٹل شعبے کا حصہ 1.5 سے 3.2 فیصد تک ہے جو کہ نقل و حمل اور جہاز رانی سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کے برابر ہے۔
UN Photo/Elma Okic
گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ڈیجیٹل شعبے کا حصہ 1.5 سے 3.2 فیصد تک ہے جو کہ نقل و حمل اور جہاز رانی سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کے برابر ہے۔

کامیابی کے عناصر

'انکٹاڈ' نے ڈیجیٹل ترقی کو مزید پائیدار صورت دینے کے لیے نئے کاروباری نمونے اور مضبوط پالیسیاں تجویز کی ہیں۔ اقوام متحدہ میں تجارت و ترقی کے ماہرین نے اس حوالے سے دنیا کو درج ذیل سفارشات پیش کی ہیں:

  • دائروی معیشت کے نظام اختیار کیے جائیں اور ڈیجیٹل اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بنا کر اور بحال کر کے ڈیجیٹؒ فضلے اور ماحولیاتی نقصان میں کمی لائی جائے۔
  • خام مال کو مزید موثر طریقے سے استعمال میں لا کر اور اس کے مجموعی استعمال کو کم کرنے کے منصوبے بنا کر وسائل سے بہتر طور پر کام لیا جائے۔
  • ضوابط کو مضبوط کیا جائے، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ماحولیاتی اثرات کو کم رکھنے کے لیے کڑے ماحولیاتی معیارات اور قوانین تشکیل دیے جائیں۔
  • قابل تجدید توانائی پر سرمایہ کاری کی جائے، تونائی کو موثر طور سے استعمال کرنے والی ٹیکنالوجی اور پائیدار ڈیجیٹل طریقہ ہائے کار پر تحقیق اور ان کی ترقی کے کام میں مدد دی جائے۔
  • بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا جائے۔ ممالک کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور ذرائع تک منصفانہ رسائی یقینی بنانے، عالمگیر ڈیجیٹل فضلے پر قابو پانے اور معدنیات نکالنے سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے لیے اکٹھے کام کریں۔

ریبیکا گرینسپین کہتی ہیں کہ عالمگیر ترقی اور اس کے مواقع یقینی بنانے میں ڈیجیٹل معیشت کا مرکزی کردار ہے۔ اسی لیے دنیا کو ایسے طریقہ ہائے کار سے کام لینے کی ضرورت ہے جو لوگوں کو ہر طرح سےفائدہ پہنچائیں اور ماحولیاتی استحکام سمیت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ ثابت نہ ہوں۔