انسانی کہانیاں عالمی تناظر

جوہری توانائی کے بغیر 2050 تک کاربن سے چھٹکارا پانا ناممکن، گروسی

جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل رافائل میریانو گروسی کا کہنا ہے کہ کئی سال تک چرنوبل اور پھر فوکوشیما کی بنا پر جوہری توانائی کے بارے میں بہت سی غلط اطلاعات عام رہی ہیں۔

جوہری توانائی ماحول دوست توانائی کے حصول میں پہلے ہی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

UN News/Joon Park
جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل رافائل میریانو گروسی کا کہنا ہے کہ کئی سال تک چرنوبل اور پھر فوکوشیما کی بنا پر جوہری توانائی کے بارے میں بہت سی غلط اطلاعات عام رہی ہیں۔

جوہری توانائی کے بغیر 2050 تک کاربن سے چھٹکارا پانا ناممکن، گروسی

موسم اور ماحول

جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافائل میریانو گروسی نے کہا ہے کہ جوہری توانائی کو عام کیے بغیر کاربن کے اخراج پر قابو پانا ممکن نہیں، تاہم اس مقصد کے لیے حکومتوں کو اس توانائی سے وابستہ منفی تاثر کو دور کرنا ہو گا۔ 

ان کا کہنا ہے کہ جوہری توانائی کئی طرح کی قابل تجدید توانائی سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔ دنیا کو اصل خطرہ معدنی ایندھن سے ہے جو کرہ ارض کو تباہی سے دوچار کر رہا ہے۔ 

'آئی اے ای اے' کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ بات جوہری توانائی کے حصول میں صرف ہونے والے ایندھن کے محفوظ انتظام پر ایک بین الاقوامی کانفرنس سے قبل یو این نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ جوہری توانائی زیادہ تر بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال ہوتی ہے لیکن اس توانائی کے بارے میں عمومی تاثر کچھ اچھا نہیں ہے۔ اس کی وجہ 1985 میں موجودہ یوکرین کے علاقے چرنوبل اور 2011 میں جاپان کے شہر فوکوشیما میں پیش آنے والے جوہری حادثات ہیں۔ علاوہ ازیں، یوکرین پر روس کے حملے کے بعد وہاں ژیپوریژیا جوہری پلانٹ کو لاحق خطرات نے بھی اس تاثر کو مضبوط کیا ہے۔ 

انہوں ںے جوہری توانائی کے معاملے میں اس کے حصول میں بھاری مقدار میں ایندھن صرف ہونے اور انتہائی تابکار فضلے کے اخراج سے بھی خدشات جنم لیتے ہیں۔ 

گزشتہ سال دبئی میں ہونے والی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 28) میں 198 ممالک نے جوہری توانائی کو کم کاربن خارج کرنے والی ایسی ٹیکنالوجی کی فہرست میں شامل کیا جس کی معدنی ایندھن پر انحصار ختم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ضرورت ہے۔ اس طرح جوہری توانائی کی ضرورت اور افادیت کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہوا۔

آج دنیا میں جتنی ماحول دوست اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک توانائی پیدا ہو رہی ہے اس میں ایک تہائی سے زیادہ حصہ جوہری توانائی کا ہے۔
Unsplash/Lukáš Lehotský
آج دنیا میں جتنی ماحول دوست اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک توانائی پیدا ہو رہی ہے اس میں ایک تہائی سے زیادہ حصہ جوہری توانائی کا ہے۔

رافائل گروسی: عوامی تاثر، پالیسیوں اور جوہری توانائی کے بارے میں سمجھ بوجھ کے حوالے سے اس اعلامیے کی بہت اہمیت ہے۔

جوہری توانائی ماحول دوست توانائی کے حصول کے معاملے میں پہلے ہی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ آج دنیا میں جتنی ماحول دوست اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک توانائی پیدا ہو رہی ہے اس میں ایک تہائی سے زیادہ حصہ جوہری توانائی کا ہے۔ میں یورپ میں رہتا ہوں جہاں پیدا ہونے والی مجموعی توانائی میں نصف حصہ جوہری توانائی کا ہے۔ اسی لیے ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی میں اس کی خاص اہمیت ہے۔ 

مسئلہ یہ ہے کہ کئی سال تک چرنول اور پھر فوکوشیما کی وجہ جوہری توانائی کے بارے میں بہت سی غلط اطلاعات عام رہی ہیں جنہوں نے اس توانائی کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ بھی پیدا کی ہے۔ 

ایسی باتیں کانفرنسوں، ملاقاتوں اور توانائی کی پالیسی سے متعلق اجلاسوں میں بھی ہوتی رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنسوں میں بھی جوہری توانائی کے خلاف مزاحمتی رویہ دیکھنے کو ملا ہے حتیٰ کہ اسے سرے سے مسترد بھی کیا گیا ہے۔ 

اسی لیے 'کاپ 28' میں جوہری توانائی کو قابل تجدید توانائی قرار دیا جانا ایک بڑا قدم تھا۔ اس موقع پر بہت سے اہم ممالک نے اپنے ہاں پیدا ہونے والی توانائی میں جوہری توانائی کی شرح تین گنا بڑھانے کے وعدے بھی کیے۔ 

میں اسے جوہری توانائی کا احیائے نو نہیں بلکہ حقیقت پسندی کی جانب واپسی کہوں گا۔ موسمیاتی تبدیلی پر بڑے سائنس دانوں کے بین الاقوامی پینل نے اعتراف کیا ہے کہ جوہری توانائی کے بغیر 2050 تک کاربن کا خاتمہ ممکن نہیں ہو گا۔ 

اسی لیے جوہری توانائی کی پیداوار بڑھے گی اور 'آئی اے ای اے' اقوام متحدہ کے نظام کے ساتھ مل کر یہ یقینی بنائے گا کہ یہ اضافہ محفوظ طریقے سے ہو اور اس کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے بچا جا سکے۔

یو این نیوز: جب آپ جوہری توانائی کے بارے میں پھیلی غلط اطلاعات کی بات کرتے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ 

رافائل گروسی: مثال کے طور پر، ایک عام سوچ یہ ہے کہ فوکوشیما جوہری حادثے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ اس وقت جاپان میں آنے والے سونامی سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے لیکن تابکاری سے ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی۔

جب آپ اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ جوہری توانائی کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد دیگر طرح کی قابل تجدید توانائی کے مقابلے میں کہیں کم ہیں۔ بہت سے لوگ فضائی حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن لوگ جہازوں پر سفر کرنا ترک نہیں کرتے۔ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو حقائق سے آگاہ رکھیں۔ 

جوہری توانائی کے بارے میں دہائیوں سے ایک مخصوص بیانیہ عام رہا ہے لیکن اب ماحولیاتی یا ماحول دوست سیاسی جماعتیں بھی سامنے آ چکی ہیں جن کے ذریعے لوگ حقائق سے آگاہی پا رہے ہیں۔ سکنڈے نیویا جیسے خطوں میں جوہری توانائی کے حق میں سرگرم جماعتوں کی تحفظ ماحول کے حوالے سے نہایت مضبوط روایت رہی ہے۔ 

اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جوہری توانائی پر 100 فیصد انحصار کرنے لگیں گے۔ ہم بیک وقت کئی طرح کی توانائی سے موثر طور پر کام لینے پر یقین رکھتے ہیں جس میں جوہری توانائی کو بنیادی حیثیت حاصل ہو۔ یہ نہایت مستحکم توانائی ہے یہ بارش اور روشنی میں بھی دستیاب ہوتی ہے، آپ اسے منظم کر سکتے ہیں اور اسے قابل تجدید توانائی کے ساتھ مدغم بھی کیا جا سکتا ہے۔

آئی اے ای اے کے ماہرین 17 اپریل 2013 کو جاپان کے فوکوشیما پاور پلانٹ کا معائنہ کر کے واپس جا رہے ہیں۔
IAEA/Greg Webb
آئی اے ای اے کے ماہرین 17 اپریل 2013 کو جاپان کے فوکوشیما پاور پلانٹ کا معائنہ کر کے واپس جا رہے ہیں۔

یو این نیوز: اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنسوں میں سامنے آنے والا ایک اہم مسئلہ ترقی پذیر ممالک کو قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے لیے مالی مدد دینا ہے۔ جوہری بجلی گھروں کی تیاری کے لیے بہت سے رقم درکار ہوتی ہے۔ یہ رقم کہاں سے آئے گی؟ 

رافائل گروسی: اس وقت عالمی سطح پر جوہری توانائی کے لیے مالیاتی وسائل کی فراہمی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ ٹیکنالوجی مخالف پالیسیاں بھی ہیں۔ تاہم اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے ان پالیسیوں پر نظرثانی کر رہے ہیں۔ 

ہم انڈیا سے چین، ارجنٹائن سے برازیل، میکسیکو، بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ تک دنیا کے جنوبی حصے میں جوہری توانائی کو ترقی پاتا دیکھ رہے ہیں۔ افریقہ کے متعدد ممالک بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ چھوٹے ری ایکٹروں کی بدولت یہ توانائی ان ممالک کے لیے قابل استطاعت ہوتی ہے۔

یو این نیوز: 'آئی اے ای اے' جوہری توانائی کے فوائد اور اس کے امکانات کی بابت بات کرتا رہتا ہے لیکن یہ ادارہ جوہری سلامتی کے بھی ذمہ دار ہیں۔ آپ ان ذمہ داریوں کو بیک وقت کیسے پورا کرتے ہیں جو بظاہر ایک دوسرے سے متضاد دکھائی دیتی ہیں؟ 

رافائل گروسی: میں اسے کسی اور زاویے سے دیکھتا ہوں۔ یوکرین میں جوہری تنصیبات (ژیپوریژیا جوہری پاور پلانٹ) پر قبضہ ہو چکا ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ دراصل جنگ ہے جو اس پلانٹ کے ارد گرد ہو رہی ہے۔

دنیا بھر میں اس وقت تقریباً 440 جوہری ری ایکٹر کام کر رہے ہیں جن میں کبھی کوئی مسئلہ نہیں آیا۔ اسی لیے ادارہ یوکرین کے حوالے سے خاص طور پر متفکر رہتا ہے تاکہ کسی حادثے سے بچا جا سکے۔ ہم اسے نہایت سنجیدگی سے لیتے ہیں لیکن یہ غیرمعمولی صورتحال ہے۔ 

کسی بھی اہم صنعتی سرگرمی کی طرح جوہری توانائی کا حصول بھی خطرات مول لینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جوہری فضلہ اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ اسے ٹھکانے لگانے کا اچھی طرح انتظام کیا جاتا ہے اور اس کی مقدار محدود ہوتی ہے۔ تجارتی بنیادوں پر 70 سال سے جاری کام میں کبھی اس فضلے سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ اس کے بجائے معدنی ایندھن کرہ ارض کو لاحق بہت بڑے خطرات کا سبب ہے۔

یو این نیوز: 'آئی اے ای اے' کے پاس اپنی لیبارٹریاں ہیں۔ آپ وہاں کس طرح کی سائنسی اور جوہری تحقیق کرتے ہیں؟

رافائل گروسی: اونکولوجی اور ریڈیو تھراپی جیسے شعبوں میں ہم ترقی پذیر ممالک کی جوہری ٹیکنالوجی سے کام لینے کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے مدد مہیا کرتے ہیں۔ جوہری توانائی ایریڈی ایشن ٹیکنالوجی کے ذریعے غذائی تحفظ بھی مہیا کر رہی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی فصلوں کو گلنے سڑنے سے بچانے، خشک سالی کا مقابلہ کرنے والے بیجوں کی تیاری، کیڑے مکوڑوں کا خاتمہ کرنے اور زکا وائرس یا ملیریا کے خطرات کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ کووڈ۔19 وبا کے بعد ہم جرثوموں اور جانوروں سے پھیلنے والے وائرس اور امراض کی بروقت نشاندہی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ 'آئی اے ای اے' کا دوسرا رخ ہے جہاں جوہری توانائی سے ترقی کے کام میں مدد لی جا رہی ہے۔