انسانی کہانیاں عالمی تناظر

انٹرویو: اسانج کی امریکہ حوالگی کے آزادی صحافت پر منفی اثرات ہونگے

جولین اسانج 2019 سے برطانیہ میں قید ہیں جہاں انہیں ہائی سیکیورٹی بیلمارش جیل میں رکھا گیا ہے۔
© Unsplash/Samuel Regan-Asante
جولین اسانج 2019 سے برطانیہ میں قید ہیں جہاں انہیں ہائی سیکیورٹی بیلمارش جیل میں رکھا گیا ہے۔

انٹرویو: اسانج کی امریکہ حوالگی کے آزادی صحافت پر منفی اثرات ہونگے

انسانی حقوق

تشدد اور ظالمانہ و غیرانسانی یا توہین آمیز انسانی سلوک کے خلاف اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار ایلس جے ایڈورڈز نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کی برطانیہ سے امریکہ کو ممکنہ حوالگی پر سنگین خدشات کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے دنیا میں صحافت اور اظہار کی آزادی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ 

اپنی حوالگی کے فیصلے کے خلاف جولین اسانج کی اپیل کی سماعت برطانوی ہائی کورٹ میں آج (فروری 20) سے زیرسماعت ہوگی۔ خصوصی اطلاع کار نے برطانیہ کے حکام سے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے پر عملدرآمد کو معطل کریں کیونکہ اس سے اسانج کی صحت کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ 

یو این نیوز کے اینٹون سپنسکی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے جولین اسانج کی ذہنی و جسمانی صحت کے حوالے سے اپنی خدشات کا تفصیلی تذکرہ کیا اور کہا کہ دنیا اس مقدمے کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے نتائج سے دنیا بھر میں آزادی اظہار پر مرتب ہونے والے ممکنہ اثرات پر بھی سب کی نظر ہے۔ 

امریکہ حوالگی کے خلاف جولین اسانج کی طویل قانونی جنگ کے بعد ان کی حتمی اپیل پر لندن کی ہائی کورٹ میں آج اور کل سماعت ہو رہی ہے۔ انہیں امریکہ میں ملکی سلامتی کے حوالے سے خفیہ دستاویزات کے حصول، انہیں عام کرنے اور مبینہ جنگی جرائم کو سامنے لانے کے الزامات میں 18 فوجداری مقدمات کا سامنا ہے۔ 

وہ 2019 سے برطانیہ میں قید ہیں جہاں اس وقت انہیں بیلمارش جیل میں رکھا گیا ہے۔ 

خصوصی اطلاع کار انسانی حقوق کے مخصوص موضوعات پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے مقرر کردہ ماہرین کو کہا جاتا ہے۔ یہ اطلاع کار یا ماہرین کسی حکومت یا ادارے کے ماتحت نہیں ہوتے، انفرادی حیثیت میں رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں اور اپنے کام کا کوئی معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔

اختصار اور وضاحت کے مقصد سے اس انٹرویو کو مدون کیا گیا ہے۔

تشدد اور ظالمانہ و غیرانسانی یا توہین آمیز انسانی سلوک کے خلاف اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار ایلس جے ایڈورڈز.
UN News
تشدد اور ظالمانہ و غیرانسانی یا توہین آمیز انسانی سلوک کے خلاف اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار ایلس جے ایڈورڈز.

یو این نیوز: آپ کو جولین اسانج کی برطانیہ سے امریکہ کو ممکنہ حوالگی پر تشویش کیوں ہے؟ انسانی حقوق اور قانونی اعتبار سے اس فیصلے کے منفی پہلو کیا ہیں؟ 

ایلس جے ایڈورڈز: برطانیہ میں جولین اسانج کا مقدمہ کئی سال سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار کی حیثیت سے میرا کردار ایسی اطلاعات پر آواز اٹھانا ہے جن کے مطابق کسی فرد کو ایسی جگہ بھیجا جا رہا ہو جہاں اسے تشدد یا غیرانسانی یا توہین آمیز سلوک کا حقیقی خطرہ لاحق ہو۔

برطانیہ تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن اور انسانی حقوق پر یورپی کنونشن کا فریق ہے۔ دونوں کی دفعہ 3 ایک جیسی ہیں جو لوگوں کی ایسے ممالک کو حوالگی کی ممانعت کرتی ہیں جہاں انہیں اس طرح کے سلوک کا خدشہ ہو۔ جولین اسانج کے مقدمے میں مجھے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں اور جن پر عدالت نے بھی بات کی ہے انہیں مدنظر رکھتے ہوئے خاص طور پر تین وجوہات کی بنا پر مجھے برطانیہ کی جانب سے دفعہ 3 کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے معاملے میں تشویش ہے۔

پہلی بات یہ کہ سبھی جانتے ہیں اور عدالت نے بھی قرار دیا ہے کہ جولین اسانج کو ذہنی دباؤ (ڈپریشن) کا عارضہ لاحق ہے۔ امریکہ کو حوالگی کی صورت میں ان کی صحت بگڑ سکتی ہے جس کے خودکشی پر منتج ہونے کا حقیقی خطرہ موجودہ ہے۔ 

دوسری وجہ یہ کہ جولین اسانج امریکہ میں مقدمے کے انتظار اور اس پر سماعت کے دوران ریمانڈ پر ہوں گے۔ اگر انہیں مجرم قرار دیا جاتا ہے تو پھر انہیں قید کی سزا دی جائے گی۔ امریکہ میں مجرموں کو تنہائی اور قید تنہائی میں رکھنے کی طویل تاریخ ہے جہاں قید خانوں میں لوگوں کو کسی سے ملاقات کی اجازت دیے بغیر ان کے کمروں میں الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ 

اس معاملے میں نیلسن منڈیلا قوانین (قیدیوں سے سلوک کے کم از کم معیار کے بارے میں ضوابط) کے تحت کسی کو 15 یوم سے زیادہ تنہا یا قید تنہائی میں رکھنا تشدد کے مترادف ہے۔ اسی لیے قوی امکان ہے کہ کسی طرح کی تنہائی اور قید تنہائی خصوصاً طویل قید تنہائی سے اسانج کی نفسیاتی اور ممکنہ طور پر جسمانی صحت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

تیسری بات یہ کہ اس مقدمے میں جولین اسانج کو 175 برس قید کی سزا سنائے جانے کا خدشہ ہے۔ اسی لیے میں سمجھتی ہوں کہ ان کی حوالگی دفعہ 3 کے تحت انہیں حاصل تحفظ کی خلاف ورزی ہو گی۔ ان پر خفیہ نوعیت کی سفارتی و دیگر دستاویزات عام کرنے کا الزام ہے جن میں مبینہ جنگی جرائم سے متعلق شہادتیں بھی شامل ہیں۔ اسانج کی عمر 53 برس ہے جبکہ انہیں 175 برس کی سزا سنائی گئی ہے جو ان کی عمر کے تین گنا عرصہ سے بھی زیادہ ہے۔ آج کل جتنا عرصہ کوئی زندہ رہتا ہے اسے مدنظر رکھا جائے تو یہ سزا عام عمر قید کے مقابلے میں ڈھائی گنا زیادہ طویل ہو گی۔

دیگر ممالک میں عمر قید کے عرصے کا قانون کے ذریعے تعین کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا میں یہ قید زیادہ سے زیادہ 30 برس اور کم از کم 10 برس کی ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کے بارے میں یورپی عدالت کا کہنا ہے کہ غیرمتناسب اور انتہائی درجے کی سزائیں بین الاقوامی قانون کے تحت قیدیوں سے بدسلوکی کے مترادف ہیں۔

جولین اسانج کی جانب سے اپنی حوالگی کے فیصلے کے خلاف اپیل برطانیہ میں زیرسماعت ہے۔
© Foreign Ministry of Ecuador/David G. Silvers
جولین اسانج کی جانب سے اپنی حوالگی کے فیصلے کے خلاف اپیل برطانیہ میں زیرسماعت ہے۔

یو این نیوز: آپ جولین اسانج کے مقدمے پر نظر رکھتی چلی آئی ہیں اور اس طرح کیا ہمیں بتا سکتی ہیں کہ آیا انہیں اس وقت جن حالات میں قید رکھا گیا وہ انسانی حقوق کے کنونشن کی شرائط کے مطابق ہیں؟

ایلس جے ایڈورڈز: میں اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی۔ ہم نے بیلمارش جیل کا دورہ نہیں کیا۔ میں وہاں نہیں گئی اور اقوام متحدہ کے حکام نے بھی کئی سال سے وہاں کے حالات کا جائزہ نہیں لیا۔

یو این نیوز: آپ برطانیہ کے حکام کو کیا پیغام دیں گی اور کیا آپ نے اس حوالے سے تاحال کوئی ردعمل دیا ہے یا انہیں امریکہ حوالے نہ کرنے کی اپنی اپیل کے ضمن میں کوئی تبصرہ کریں گی؟ 

ایلس جے ایڈورڈز: برطانیہ سے میری اپیل عدالتوں کے لیے ہے۔ یہ عمل عدالتوں کے ذریعے ہو رہا ہے لیکن بالآخر یہ وزیر خارجہ پر منحصر ہے کہ اگر عدالت اجازت دے تو ان کی حوالگی عمل میں آئے گی یا نہیں۔ میری اپیل یہ ہےکہ اسانج کے معاملے میں کوئی حل نکالا جائے۔ یہ ان کی جانب سے برطانیہ میں کی جانے والی آخری اپیل ہے۔ 

یہ جولین اسانج کی آخری داخلی اپیل ہے۔ اس کے بعد ان کے لیے اپیلوں کی گنجائش ختم ہو گئی ہے۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ اس مقدمے کا اسانج کی صحت اور بہبود پر سنگین اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے بالاحتیاط جائزہ لیا گیا۔ میری برطانیہ کے حکام سے یہی اپیلیں ہیں۔ 

یو این نیوز: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ جولین اسانج کی حوالگی سے دنیا بھر میں آزادی صحافت کے حوالے سے ایک خطرناک مثال قائم ہو سکتی ہے یا دیگر صحافیوں اور مسائل کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے مقدمات بھی اس سے متاثر ہو سکتے ہیں؟ 

ایلس جے ایڈورڈز: میں سمجھتی ہوں کہ ممالک کو سفارتی سطح پر ایک دوسر ے کے ساتھ کام کرنے اور باہم خفیہ روابط رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ درحقیقت عالمی امن و سلامتی کا دارومدار ایک خاص سطح کے تحفظ پر ہوتا ہے۔ تاہم انسانی حقوق کا تقاضا ہے کہ جب قوانین اور اصولوں سے انحراف کیا جائے یا لیکس کی جاری کردہ بعض دستاویزات کے مطابق جنگی جرائم کے ارتکاب کا معاملہ درپیش ہو تو شفافیت سے کام لینا ضروری ہے۔ 

غداری کے خلاف قانون ہو یا قومی سلامتی کے قوانین، ان میں حقوق کی پامالیوں پر آواز اٹھانے والوں کو تحفظ ملنا چاہیے۔ جہاں تک میں سمجھتی ہوں، امریکہ میں فی الوقت ایسی صورتحال نہیں ہے۔ اس حوالے سے وہاں جو قانون موجود ہے وہ انسانی حقوق کے حوالے سے 21ویں صدی کے معیارات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ چنانچہ یہ جولین اسانج جیسے حالات کا شکار لوگوں کے لیے پریشان کن معاملہ ہے جو اپنی حکومتوں کی سرگرمیوں یا ان کے مبینہ ارتکاب کے بارے میں معلومات کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔

درحقیقت تمام تر بین الاقوامی نظام اپنے ذہن سے کام لینے، آزادی اظہار اور حکومتوں کی جانب سے حقوق کی پامالیوں یا ممکنہ پامالیوں کو سامنے لانےکی اہلیت پر کام کرتا ہے۔ اسی لیے حکومتوں کا احتساب بھی ہونا چاہیے۔

لہٰذا، میں کہوں گی کہ دنیا اس مقدمے کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔ میں چاہوں گی کہ امریکہ اور برطانیہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالیں جس کے تحت جولین اسانج کی موجودہ طبی حالت کو دیکھتے ہوئے انہیں امریکہ کے حوالے نہ کرنا پڑے۔