انسانی کہانیاں عالمی تناظر

انٹرویو: حصول انصاف میں جنسی استحصال کے شکار افراد کی مشکلات

آسٹریلیا کی جین کونرز اقوام متحدہ میں جنسی استحصال کے متاثرین کی پہلی ایڈووکیٹ ہیں۔
UN News
آسٹریلیا کی جین کونرز اقوام متحدہ میں جنسی استحصال کے متاثرین کی پہلی ایڈووکیٹ ہیں۔

انٹرویو: حصول انصاف میں جنسی استحصال کے شکار افراد کی مشکلات

انسانی حقوق

ناقدین کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کے ہاتھوں جنسی استحصال اور بدسلوکی پر انصاف تاخیر سے ملتا ہے اور ذمہ داروں کا ہمیشہ احتساب نہیں ہوتا۔ ایسے متاثرین کے حقوق کی وکیل جین کونرز ادارے کے 35 سے زیادہ شعبوں میں متاثرین پر مرتکز حکمت عملی لاگو کر رہی ہیں۔

جین کونرز کو 2017 میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ادارے کی جانب سے ان متاثرین کے حقوق کی پہلی وکیل مقرر کیا تھا۔

انہوں ںے یو این نیوز کو ایسے متاثرین اور ان کے بچوں کے ساتھ اپنی ''انتہائی مشکل بات چیت'' کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ کیسے اقوام متحدہ متاثرہ افراد کے بچوں کی مدد سے لے کر ڈی این اے ٹیسٹ تک ان کے بہت سے مسائل حل کر رہا ہے۔

جنسی استحصال اور تشدد کے خلاف مہم کے دوران کانگو میں تھیٹر گروپ پرفارم کرتے ہوئے۔
MONUSCO/Alain Likota
جنسی استحصال اور تشدد کے خلاف مہم کے دوران کانگو میں تھیٹر گروپ پرفارم کرتے ہوئے۔

یو این نیوز: اس معاملے میں اب تک ہونے والی پیش رفت کے بارے میں آپ کا کیا اندازہ ہے؟

جین کونرز: لوگوں کو پالیسی کے نقطہ نظر سے یہ سمجھانے میں اچھی پیش رفت ہوئی ہے کہ متاثرین اور ان کے حقوق اور وقار انتہائی اہم ہیں۔ اسے عملی سطح پر حقیقت میں تبدیل کرنا ہی اصل مسئلہ ہے۔

جن علاقوں میں متاثرین کے حقوق کے وکیل موجود ہیں وہاں ہم نے بہت اچھی پیش رفت کی ہے۔ وسطی جمہوریہ افریقہ، جمہوریہ کانگو، ہیٹی اور جنوبی سوڈان اس کی نمایاں مثال ہیں۔

جنسی استحصال اور بدسلوکی کا اکثر نتیجہ حمل کی صورت میں نکلتا ہے اور ایسے واقعات میں ملوث مرد تقریباً ہمیشہ خواتین کو چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ ان کا کہیں اور دوسرا خاندان بھی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں خاص طور پر بچے کی ولدیت ثابت کرنے کے دعووں کے حوالے سے متاثرین کی مدد کے بارے میں مزید آگاہی سامنے دی گئی ہے اور مزید کام ہوا ہے۔

جنسی استحصال کے اثرات کو پوری طرح نہ سمجھنا اور ایسے واقعات کو باہمی رضامندی کا نتیجہ تصور کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگر کوئی اپنی طاقت سے کام لے کر دوسروں کا استحصال کرے اور اسے بظاہر ان کی رضامندی پر مبنی عمل قرار دے تو یہ رضامندی نہیں ہوتی۔ متاثرین کے لئے احتساب ممکن بنانے کا احساس ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ متاثرین کے نقطہ نظر سے احتساب کرنا دوسروں کی ممکنہ سوچ سے بہت مختلف کام ہو گا۔

جین کونرز نے جنسی استحصال کے شکار افراد کی ایڈووکیٹ بننے کے بعد جنوبی سوڈان کا دورہ کیا تھا۔
UN Photo/Isaac Billy
جین کونرز نے جنسی استحصال کے شکار افراد کی ایڈووکیٹ بننے کے بعد جنوبی سوڈان کا دورہ کیا تھا۔

یو این نیوز: کیا ممالک حقیقی پیش رفت کے لئے درست سمت میں کام کر رہے ہیں؟

جین کونرز: ولدیت ثابت کرنے کے جن دعووں کے بارے میں ہم آگاہ ہیں ان کا تعلق مختلف علاقوں میں اقوام متحدہ کے امن مشن یا خصوصی سیاسی مشن میں کام کرنے والے اہلکاروں سے ہے جن میں زیادہ تر فوجی یا پولیس اہلکار شامل ہوتے ہیں۔ متاثرین کی نشاندہی کے معاملے میں ابھی ان مشنز کو بہت سا کام کرنا ہے۔

میں نے متعدد ممالک کے دورے کئے ہیں جن کا مقصد اعتماد کا حصول اور وہاں کام کرنے والے مشن پر زور دینا تھا کہ وہ ایسے لوگوں کو اپنے دفاتر میں بلائیں جو متاثرین کے بچوں کے باپ ہیں اور ڈی این اے مماثلت کے ذریعے ان کی شناخت کی گئی ہے تاکہ ایسے واقعات میں ملوث مرد اپنی ذمہ داری پوری کریں۔

بچوں کے حقوق کا حصول یقینی بنانا رکن ممالک اور اقوام متحدہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ انہیں یہ جاننے کا حق ہے کہ ان کا باپ کون ہے اور انہیں اپنے والد کی مدد حاصل ہونی چاہیے۔ یہ ایسے افراد کی بحیثیت والد ذمہ داری بھی ہے۔

یو این نیوز: کیا متاثرین کی مدد کے لئے اقوام متحدہ کے امدادی فنڈ سے چلنے والے منصوبے متاثرین کی زندگیوں میں کوئی حقیقی فرق پیدا کر رہے ہیں؟

جین کونرز: میں سمجھتی ہوں کہ فرق پڑ رہا ہے۔ اس وقت جمہوریہ کانگو اور لائبیریا میں ہمارے منصوبے جاری ہیں، ایسا ایک منصوبہ ہیٹی میں شروع کیا گیا ہے اور جلد وسطی جمہوریہ افریقہ میں بھی شروع کیا جائے گا۔ ہمیں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے مزید بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ روک تھام اور جوابی اقدامات کا باہم لازمی تعلق ہے اور ایک کے بغیر دوسرے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

لوگوں کو ان کے طرز عمل کے نتائج کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرنے کے لیے متاثرہ فریق کے حوالے سے سمجھ بوجھ ضروری ہے۔ ایسے واقعات میں صرف فرد ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس کے اردگرد رہنے والے لوگ اور اس کا اپنا خاندان بھی متاثر ہوتا ہے۔ جب ہم بدسلوکی کی بات کرتے ہیں تو بڑی حد تک ہم 18 سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ سنگین نوعیت کی جنسی بداخلاقی کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔

میں رویے میں تبدیلی پر مزید توجہ دینے کے لئے کہنا چاہوں گی۔ اس کے لئے بہت سا کام، پائیدار وسائل کی فراہمی اور بہت بڑی قیادت درکار ہے تاکہ ایسی تبدیلی لائی جائے جو عام طور پر لوگوں کے لئے ناقابل قبول ہوتی ہے۔ یاد کیجئے کہ کبھی نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرنا بری بات نہیں سمجھی جاتی تھی اور اب یہ بالکل ناقابل قبول چیز ہے۔ ایسی تبدیلی کے لئے طویل وقت درکار ہوتا ہے۔

یو این نیوز: کیا جنسی استحصال کے واقعات کی تفتیش خاطرخواہ رفتار سے ہو رہی ہے؟

جین کونرز: نفاذ قانون کے پس منظر سے تحقیقات کرنے کے لئے مزید کام کی ضرورت ہے۔ یہ کام کرنے والے لوگوں کو اپنے ذہن تبدیل کرنا ہوں گے۔ انہیں یہ سمجھنا ہو گا کہ تاخیر بہت نقصان دہ ہے۔ انہیں نرم خو اور ہمدرد ہونا ہو گا اور متاثرہ افراد کو آگاہ رکھنا ہو گا۔ متاثرین کو اطلاعات کی فراہمی اور پیش رفت کے حوالے سے آگاہ رکھنے کا کام تسلی بخش نہیں ہے اور اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

یو این نیوز: کیا آپ متاثرین سے کوئی ایک جیسی باتیں بھی سن رہے ہیں؟

جین کونرز: یہ بہت مشکل طرح کی بات چیت ہے۔ میں ہر ایسے فرد سے ملوں گی جو اس موضوع پر بات کرنا چاہتا ہو۔ مجھے یاد ہے کہ چند برس پہلے میں نے ایک ملک کا دورہ کیا تھا جہاں بہت بڑی تعداد میں ایسی خواتین موجود تھیں جن کے بچے جنسی استحصال اور بدسلوکی کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ خواتین نہایت غیرمطمئن تھیں، انہیں کوئی مدد نہیں ملی تھی، ان کے بچے سکول نہیں جاتے تھے کیونکہ ان کے پاس ان کی فیس دینے کے لئے مالی وسائل نہیں تھے اور انہیں ولدیت کے دعووں کے حوالے سے کچھ بھی علم نہیں تھا۔

ان میں سے ایک خاتون نے مجھے کہا کہ ''آپ جیسے لوگوں کو ہم ہر وقت دیکھتے ہیں۔ آپ آتے ہیں، ہم سے بات کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں جس کے بعد ہمیں آپ کی جانب سے کچھ بھی سننے کو نہیں ملتا۔ میں نے انہیں کہا کہ ''دیکھیے، میں بہت زیادہ بااختیار فرد نہیں ہوں لیکن مجھ سے جو کچھ بھی ہو سکا میں آپ کے لئے کروں گی۔''

اُس ملک میں میرے بہت اچھے ساتھی موجود ہیں جنہوں ںے 40 ہزار ڈالر جمع کئے تاکہ ایسی خواتین کے بچے سکول جا سکیں۔ اس سے بہت بڑی تبدیلی آئی۔ اس سال کے آخر میں ان لوگوں نے اس متاثرہ خاتون سے دوبارہ ملاقات کی تو اس کا کہنا تھا کہ ''یہاں آنے والی خاتون نے کم از کم وہ ضرور کیا جسے کرنے کا اس نے وعدہ کیا تھا۔''

یو این نیوز: آپ متعدد ممالک میں متاثرین سے مل چکی ہیں۔ ان کے لئے آپ کیا پیغام دیں گی؟

جین کونرز: میں اقوام متحدہ کے حوالے سے ان کے تحمل، استقلال اور لچک کو دیکھ کر حیران ہوئی اور مجھے ان لوگوں نے بھی بے حد متاثر کیا جو اب آگے بڑھ رہے ہیں۔ جہاں تک جاری منصوبوں کا تعلق ہے تو ایسی خواتین بھی ہیں جو اب کاروبار کرنے کے لئے آگے بڑھنے کے قابل ہو گئی ہیں۔ ہم یہ کام مل جل کر کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ اپنے اہلکاروں کے ہاتھوں جنسی استحصال اور بدسلوکی کے ارتکاب سے کیسے نمٹتا اور متاثرین کی کیسے مدد کرتا ہے

متاثرین کے حقوق کی وکیل کا دفتر: یہ دفتر اقوام متحدہ کے تمام اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ متاثرین کو درکار مدد اور تعاون مہیا کیا جا سکے۔ یہ دفتر اس معاملے میں امدادی نیٹ ورک قائم کرنے کے لئے رکن ممالک اور سول سوسائٹی کے ساتھ اشتراک میں کام کرتا ہے۔ دفتر کے زیراہتمام اقدامات میں ممالک کے دورے اور متاثرین تک رسائی، متاثرین کے لئے دستیاب خدمات کا جائزہ لینا اور سالانہ رپورٹوں کی تیاری شامل ہیں۔

متاثرین کی امداد کا فنڈ: یہ فنڈ 2016 میں شروع کیا گیا تھا جو رکن ممالک کے مہیا کردہ وسائل سے چلتا ہے اور اسے فوج اور پولیس مہیا کرنے والے ایسے ممالک کے روکے گئے وسائل بھی مہیا کئے جاتے ہیں جن کے اہلکاروں کی جانب سے جنسی استحصال یا بدسلوکی کا ارتکاب ثابت ہو۔ منصوبے کی بنیاد پر مختص کئے جانے والی مالی وسائل سے خواتین کو حصول روزگار میں مدد فراہم کی جاتی ہے اور جنسی استحصال اور بدسلوکی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو نفسیاتی، تعلیمی اور غذائی مدد مہیا کی جاتی ہے۔

متاثرین کے لئے ذرائع: الزام کی اطلاع دینے اور بہت سی دیگر خدمات کے حوالے سے معلومات اور رہنمائی دستیاب ہے۔

اقوام متحدہ کے اداروں کے لئے تربیتی نمونہ: 2.5 گھنٹے پر مشتمل اس تربیتی عمل کا آغاز اس کا آغاز رواں سال جنوری میں ہوا تھا۔ یہ نمونہ اقوام متحدہ کے تمام اداروں کے عملے اور دیگر متعلقہ اہلکاروں کو متاثرین کے حقوق کے حوالے سے واضح سوجھ بوجھ مہیا کرتا ہے، انہیں متاثرین پر مرتکز طریقہ ہائے کار سے روشناس کراتا ہے اور کسی الزام کے سامنے آنے کی صورت میں فوری اقدامات کے حوالے سے انہیں ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتا ہے۔

جنسی ہراسانی سے نمٹنے کے لئے چیف ایگزیکٹو بورڈ کی ٹاسک فورس: یہ ٹاسک فورس 2017 میں قائم کی گئی تھی جو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے الزامات کی تحقیقات کے طریقہ کار سمیت کئی طرح کے ذرائع اور رہنمائی مہیا کرتی ہے۔

ڈی این اے کا حصول: جنوبی افریقہ اور اقوام متحدہ کے اشتراک سے جمہوریہ کانگو میں اقوام متحدہ کے استحکامی مشن (مونوسکو) میں ہر سپاہی کی تعیناتی سے قبل اس کے ڈی این اے کا نمونہ لیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے اداروں میں نگرانی کا اہتمام: الزامات کے حوالے سے اطلاعات کا ماہانہ بنیادوں پر کھوج لگایا جاتا ہے اور ان میں نیا اضافہ کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں کام کرنے والے اقوام متحدہ کے مشن کے اہلکاروں کے طرزعمل کا جائزہ لینے کا عمل 2006 سے جاری ہے۔