انسانی کہانیاں عالمی تناظر

یوکرین

یوکرین

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے یوکرین کے صدر ولادیمر زیلنسکی سے لوویو میں ملاقات کی۔
UN Photo/Mark Garten

یوکرین میں روس کی جنگ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ گزشتہ سات ماہ میں ناقابل بیان صعوبتیں اور تباہیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ جبکہ حالیہ صورتحال خطرناک اور پریشان کُن ہے۔

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کا 22 ستمبر 2022 کو یوکرین پر سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کے دوران بیان۔

عمومی جائزہ

روس کی جانب سے 24 فروری 2022 کو یوکرین پر شروع کیے جانے والے فوجی حملے کے بعد یوکرین میں سلامتی کی صورتحال تیزی سے بگڑی ہے۔ کیوسکا اوبلاسٹ (علاقے) اور دارالحکومت کیئو سمیت کم از کم آٹھ اوبلاسٹ (علاقوں) میں مسلح تشدد بڑھ گیا ہے۔ ان میں مشرقی اوبلاسٹ ڈونیسک اور لوہانسک بھی شامل ہیں جو پہلے ہی جنگ سے متاثر تھے۔

جنگ میں شدت آنے سے انسانی ضروریات میں بھی فوری اور تیز تر اضافہ ہوا ہے کیونکہ ضروری رسد اور خدمات کی ترسیل میں خلل آیا ہے اور عام شہری جنگ زدہ علاقوں کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق آنے والے مہینوں میں یوکرین کے اندر ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کو امداد اور تحفظ کی ضرورت ہو گی جبکہ اس کے ہمسایہ ممالک میں یوکرین سے تعلق رکھنے والے چالیس لاکھ سے زیادہ مہاجرین کو تحفظ اور مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

یکم مارچ 2022 کو اقوام متحدہ اور اس کے امدادی شراکت داروں نے مجموعی طور پر 1.7 بلین ڈالر جمع کرنے کی مربوط ہنگامی اپیلیں کیں جن کا مقصد یوکرین میں موجود لوگوں اور اس کے ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے والے مہاجرین کو فوری طور پر انسانی امداد مہیا کرنا تھا۔

اس منصوبے کے تحت آئندہ تین مہینوں میں فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں متاثر اور بے گھر ہونے والے ساٹھ لاکھ سے زیادہ لوگوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے کے لیے 1.1 بلین ڈالر درکار ہیں۔ اقوام متحدہ نے جان بچا کر یوکرین کی سرحدوں سے باہر جانے والے لوگوں کی مدد کے لیے 551 ملین ڈالر مہیا کرنے کی درخواست کی ہے۔ یوکرین کے یہ لوگ سرحد پار کر کے بنیادی طور پر پولینڈ، ہنگری، رومانیہ اور مولڈووا میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

یوکرین کے لیے بحرانی امور سے متعلق اقوام متحدہ کے رابطہ کار امین اعواد نے "فوری انسانی امداد" کی خاطر روس اور یوکرین کی افواج کے مابین پانچ مارچ کو عارضی جنگ بندی کی اپیل کی کیونکہ اقوام متحدہ کی جانب سے ملک میں امدادی سامان کی ترسیل جاری تھی۔

یوکرین میں اقوام متحدہ کی ٹیم کے بارے میں معلومات یہاں دستیاب ہیں۔

 

 

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل
N/A
UN Photo/Manuel Elías

جنرل اسمبلی کی جانب سے جاری کردہ پیغام واضح ہے کہ یوکرین میں جنگی کارروائیوں کو فوری بند کیا جائے۔ گولہ باری فوری روکی جائے۔ بات چیت اور سفارت کاری کے دروازے فوری کھولے جائیں۔

ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں ہے۔ جنگ کے بہیمانہ اثرات بالکل واضح ہیں۔ لیکن یوکرین میں لوگوں کے لیے موجودہ حالات کے مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔

دنیا یوکرین میں بے پناہ انسانی تکالیف کا خاتمہ چاہتی ہے۔ یہ حقیقت یوکرین اور اس کے ہمسایہ ممالک میں زندگی کو تحفظ دینے کے لیے ہماری امدادی کارروائیوں کے لیے مالی وسائل جمع کرنے کی تیزرفتار سے عیاں تھی۔ دنیا بھر کے ممالک سے امداد کے لیے ہماری ہنگامی اپیل کا جس قدر فیاضانہ جواب آیا اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے میں جنگ کے جلد از جلد خاتمے اور امن بات چیت فوری شروع کرنے کے لیے ہرممکن کوشش جاری رکھوں گا۔ یوکرین کے لوگ بے تابانہ طور سے امن کے متلاشی ہیں۔ دنیا بھر کے لوگوں کا بھی یہی مطالبہ ہے۔ مکمل بیان پڑھیے

 

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل
N/A
UN Photo/Evan Schneider

یوکرین کی سرحد پر روس کی 100,000 سے زیادہ فوج کی تعیناتی اور اس کی جنگی تیاریوں کی اطلاعات پر امریکہ کی جانب سے دی گئی درخواست پر 31 جنوری 2022 کو سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔

روس کی جانب سے یوکرین کے علاقے ڈونیسک اور لوہانسک کو آزاد خطے تسلیم کرنے کے فیصلے پر یوکرین کے وفد کی درخواست پر 21 فروری بروز سوموار سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیاسی دفتر کی سربراہ روزمیری ڈی کارلو نے کونسل کو دی گئی اپنی بریفنگ میں روس کی جانب سے ''قیام امن کے لیے کام کرنے والے مشن'' کی اصطلاح کے استعمال پر خدشات کا اظہار کرنے کے علاوہ اس فیصلے کے علاقائی اور عالمگیر مضمرات کی بابت خبردار بھی کیا گیا۔

سلامتی کونسل کے اس ہنگامی اجلاس کے بعد 23، 25 اور 27 فروری کو تین مزید اجلاس بھی منعقد ہوئے۔ 23 فروری کو رات گئے ہونے والے اجلاس میں سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اپنے مختصر بیان میں روس کے صدر پر بھرپور انداز میں زور دیا کہ وہ اپنی فوج کو یوکرین پر حملہ کرنے سے روکیں۔ لیکن اس مطالبے سے کچھ ہی دیر کے بعد اور اجلاس کے دوران ہی یہ خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ روس نے یوکرین میں ایک ''خصوصی فوجی کارروائی'' شروع کر دی ہے۔ کونسل کے متعدد مندوبین نے اس پیش رفت کی مذمت کی۔

بعدازاں روس کے حملے کے جواب میں 25 فروری بروز جمعہ کونسل کا اجلاس دوبارہ ہوا جس کا مقصد امریکہ اور البانیہ کی جانب سے تیار کردہ قرارداد پر رائے شماری کرانا تھا۔ اس قرار داد کو کونسل کے کئی دیگر ارکان کی حمایت بھی حاصل تھی جس میں ''روس کی جارحیت'' پر افسوس کا اظہار کیا گیا اور ماسکو سے کہا گیا کہ وہ اپنی فوجیں یوکرین سے واپس بلائے۔ سلامتی کونسل کے گیارہ ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور تین (چین، انڈیا اور متحدہ عرب امارات) رائے شماری کے موقع پر غیرحاضر رہے۔ اُس مہینے میں کونسل کی صدارت روس کے پاس تھی جس نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔

27 فروری بروز اتوار سلامتی کونسل کا ایک اور ہنگامی اجلاس ہوا جو کہ ایک ہفتے میں مجموعی طور پر چوتھا اجلاس تھا۔ اس موقع پر ایک باضابطہ اقدام کی منظوری دی گئی جسے رسماً 'امن کے لیے اتحاد' کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسبملی کے 193 ارکان سے کہا گیا کہ وہ فوری طور پر ایک قرارداد پیش کریں جس میں یوکرین میں روس کی فوجی کارروائی روکے جانے کا مطالبہ کیا جائے۔

یوکرین پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی خبریں پڑھیے

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی
N/A
UN Photo/Loey Felipe

روس کا فوجی حملہ شروع ہونے کے بعد جب خطے کی صورتحال بگڑ رہی تھی تو روس نے 26 فروری کو سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کو ویٹو کر دیا جس میں یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے اسے روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان روس، چین، فرانس، برطانیہ اور امریکہ میں سے کسی ایک کی جانب سے کسی قرارداد کو ویٹو کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ قرارداد منظور نہیں ہو سکتی۔

سلامتی کونسل کے اجلاس کے اختتام پر یوکرین اور متعدد دیگر ممالک کے وفود نے 193 ارکان پر مشتمل جنرل اسمبلی میں بھی ایسی ہی قرارداد لانے کا عہد کیا جہاں رائے شماری کرانا لازمی نہیں۔

27 فروری بروز اتوار سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں ایک باضابطہ اقدام کی منظوری دی گئی جسے رسماً ''امن کے لیے اتحاد'' کا نام دیا گیا۔ اس میں جنرل اسمبلی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنا ہنگامی خصوصی اجلاس بلائے جس میں ایک قرارداد پیش کی جائے گی جس میں روس سے یوکرین کے خلاف فوجی کارروائی بند کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

''اگر سلامتی کونسل اپنے مستقل ارکان میں اختلاف کے باعث عالمگیر امن و سلامتی قائم رکھنے سے متعلق اپنی بنیادی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے'' تو 'امن کے لیے اتحاد' کے فارمولے کے تحت جنرل اسمبلی کے پاس اس حوالے سے کوئی قدم اٹھانے کا اختیار ہوتا ہے۔

جنرل اسمبلی کا 11واں ہنگامی خصوصی اجلاس یکم مارچ کو ہوا اور اقوام متحدہ کے بہت سے ارکان کی حمایت سے 2 مارچ کو ایک قرارداد بھاری اکثریت سے مںظور کی گئی جس میں روس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ یوکرین میں اپنی فوجی کارروائیاں فوری بند کرے۔

اس قرارداد کے حق میں مجموعی طور پر 141 ممالک نے ووٹ دیا اور اس میں یوکرین کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کی ازسرنو توثیق بھی کی گئی۔

اقوام متحدہ کے ادارے