انسانی کہانیاں عالمی تناظر

افریقہ سے یورپ جانے والے مہاجرین تشدد و استحصال کا نشانہ، رپورٹ

لیبیا کے ساحل کے قریب مہاجرین کی کشتی الٹنے کے ایک واقعہ میں بچ جانے والوں کو آئی او ایم کا عملہ ابتدائی امداد مہیا کر رہا ہے۔
IOM/Hussein Ben Mosa
لیبیا کے ساحل کے قریب مہاجرین کی کشتی الٹنے کے ایک واقعہ میں بچ جانے والوں کو آئی او ایم کا عملہ ابتدائی امداد مہیا کر رہا ہے۔

افریقہ سے یورپ جانے والے مہاجرین تشدد و استحصال کا نشانہ، رپورٹ

مہاجرین اور پناہ گزین

یورپ جانے کی کوشش میں افریقہ بھر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین اور تارکین وطن سمندر اور خشکی پر طویل سفر میں شدید طرح کے تشدد، استحصال اور موت کا سامنا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے ممالک کے سرحدی حکام سے اپیل کی ہےکہ ان لوگوں کو تحفظ دیا جائے۔

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر)، ادارہ برائے مہاجرین (آئی او ایم) اور غیرسرکاری ادارے 'مکسڈ مائیگریشن سنٹر' (ایم ایم سی) کی رپورٹ کے مطابق، خطرناک زمینی راستوں پر سفر کرنے والے ان لوگوں کو پیش آنے والے بدترین حالات کی تفصیل عام طور پر سامنے نہیں آتی۔

Tweet URL

صحارا میں موت کا سفر

مغربی اور وسطی بحیرہ روم کے خطے کے لیے 'یو این ایچ سی آر' کے خصوصی نمائندے ونسینٹ کوشیل نے کہا ہے کہ تمام تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو دوران سفر انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سامنا ہے۔ اس سطح کے تشدد کو نظرانداز  نہیں کیا جا سکتا۔

تین سال میں جمع کردہ معلومات اور اعدادوشمار پر مبنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افریقہ سے یورپ جانے کی کوشش میں زیادہ اموات سمندر کے بجائے صحرائے صحارا میں ہوتی ہیں۔ اس سفر میں کوئی کسی کا خیال نہیں رکھتا اور زمینی راستے پر اموات میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔

'آئی او ایم' میں خطہ بحیرہ روم کے لیے رابطہ دفتر کے ڈائریکٹر لارنس ہارٹ نے کہا ہے کہ وسطی بحیرہ روم کا راستہ مہاجرت کی خطرناک ترین گزرگاہوں میں شمار ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ یہ خطرناک سفر اختیار کرنا نہیں چاہتے لیکن اپنے ممالک میں سیاسی تنازعات اور عدم استحکام کے باعث وہ ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

پانچ ہزار ہلاکتیں

افریقہ کے ساہل خطے اور سوڈان میں نئے تنازعات، موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات اور مشرقی افریقہ و شاخ افریقہ میں نئے اور طویل ہنگامی حالات، نسل پرستی اور غیرملکیوں سے نفرت جیسے عوامل لوگوں کو ہجرت پر مجبور کرتے ہیں۔ وسطی بحیرہ روم کے آر پار پناہ گزینوں کو مدد اور تحفظ کی فراہمی میں بہت سے مسائل حائل ہیں جس کی وجہ سے ان لوگوں کو ایک سے دوسری جگہ کا سفر اختیار کرنا پڑتا ہے۔

مکسڈ مائیگریشن سنٹر (ایم ایم سی) کے ڈائریکٹر بریم فروز کا کہنا ہے کہ رواں سال کے ابتدائی پانچ مہینوں میں 5,000 افراد افریقہ سے بحیرہ اوقیانوس کے جزائر کینیری جانے کی کوشش میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ تعداد گزشتہ برس اسی عرصہ کے مقابلے میں 700 فیصد زیادہ ہے۔ سمندر کے مقابلے میں خشکی پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے لیکن عام طور پر ایسے بہت سے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔

استحصال اور ناکافی تحفظ

بریم فروز نے کہا ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے پناہ کے خواہش مند لوگوں کی زندگیوں کو تحفظ دینے کے وعدوں کے باوجود فی الوقت ان کا استحصال کرنے والوں کا محاسبہ کرنے اور انہیں راستوں میں درپیش خطرات سے تحفظ دینے کے لیے کیے گئے اقدامات ناکافی ہیں۔

عام طور پر جرائم پیشہ گروہ اور انسانی سمگلر مہاجرین اور پناہ گزینوں کا استحصال کرتے ہیں تاہم اس میں پولیس، فوج اور سرحدی محافظوں کا کردار بھی ہوتا ہے جو ایسے جرائم کر کے صاف بچ نکلتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسانی سمگلنگ کے راستے شہروں سے دور اور دشوار گزار علاقوں کی جانب منتقل ہو رہے ہیں۔ اس کا مقصد جنگ زدہ علاقوں اور سرحدی محافظوں سے بچ کر چلنا ہوتا ہے لیکن اس طرح مہاجرین اور پناہ گزینوں کے لیے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

پناہ گزینوں کو جسمانی تشدد، ناجائز حراستوں، موت، اغوا برائے تاوان، جنسی تشدد، استحصال، غلامی، انسانی سمگلنگ، جبری مشقت، جسمانی اعضا نکالے جانے، ڈکیتی، اجتماعی ملک بدری اور مرضی کے خلاف آبائی ممالک میں واپس بھیجے جانے کی صورت میں استحصال کا سامنا رہتا ہے۔

امدادی وسائل کی قلت

رپورٹ کے مطابق، مہاجرت کے راستوں پر سفر کرنے والوں کی مدد اور استحصال کا سامنا کرنے والوں کو انصاف کی فراہمی کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس معاملے میں انسانی امداد کی فراہمی کو وسائل کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

تاہم، ان مسائل کے باوجود 'یو این ایچ سی آر'، 'آئی او ایم' اور این جی اوز سمیت ان کے شراکت داروں اور متعدد حکومتوں نے مہاجرت کے راستوں پر زندگیوں کو تحفظ دینے، متاثرین کی نشاندہی اور انہیں محفوظ جگہوں پر پہنچانے کے اقدامات کیے ہیں۔

لارنس ہارٹ کا کہنا ہے کہ مہاجرین اور پناہ گزینوں کو ان کی عبوری منازل کے علاوہ ایسے یورپی ممالک میں قانونی حیثیت دینے پر غور کرنے کی بھی ضرورت ہے جنہیں صلاحیتوں اور افرادی قوت کی ضرورت رہتی ہے۔