انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ: امدادی کارروائیوں میں رکاوٹیں بچوں میں فاقہ کشی کا سبب

غزہ میں ساحلی راستے سے پہنچنے والی انسانی امداد میں توانائی سے بھرپور بسکٹ بھی شامل ہیں جن کا ڈبہ یہ فلسطینی خاندان وصول کر کے لا رہا ہے۔
© WFP/Jaber Badwan
غزہ میں ساحلی راستے سے پہنچنے والی انسانی امداد میں توانائی سے بھرپور بسکٹ بھی شامل ہیں جن کا ڈبہ یہ فلسطینی خاندان وصول کر کے لا رہا ہے۔

غزہ: امدادی کارروائیوں میں رکاوٹیں بچوں میں فاقہ کشی کا سبب

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے امدادی حکام نے اسرائیل پر انسانی امداد کی محفوظ فراہمی کے بین الاقوامی قانون کی پاسداری کے لیے زور دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں خوراک کی قلت کے باعث بچے فاقوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق غزہ بھر کے بچوں کو روزانہ کم از کم پانچ کی بجائے صرف دو طرح کی خوراک مل رہی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے 80 بچے ایسے ہیں جنہیں ہر تین میں سے ایک روز کسی وقت کھانا نہیں ملتا۔

Tweet URL

ادارے نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی امداد کی محفوظ فراہمی یقینی بنائے۔ 

غزہ میں بھوک کا راج

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ وسط جنوری سے اب تک پانچ سال سے کم عمر کے 93,400 بچوں کا غذائی قلت کے حوالے سے جائزہ لیا گیا تو ان میں سے 7,280 شدید درجے کی غذائی قلت کا شکار پائے گئے۔ ان میں 5,604 معتدل درجے کی شدید غذائی کمی اور 1,676 سنگین درجے کی شدید غذائی قلت کا شکار تھے۔ 

ادارے کے ترجمان جینز لائرکے نے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو اتنی مقدار میں خوراک میسر نہیں ہے جو انہیں قحط کے خطرے سے بچانے کے لیےکافی ہو۔ 

'امداد نہیں آ رہی'

جینز لائرکے نے جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت اسرائیل کے حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی میں سہولت دیں اور یہ امداد سرحد پر ہی پڑی نہ رہے۔ امداد کو سرحد پار چند میٹر فاصلے پر رکھ دینا اور اسے آگے لے جانے کی ذمہ داری امدادی اداروں پر ڈال دینا ہی کافی نہیں۔ سرحد پار سے جتنی بھی امداد آ رہی ہو وہ غزہ کے لوگوں تک نہیں پہنچ رہی۔

امدادی حکام زور دے رہے ہیں کہ زمینی راستے ہی امداد کی حسب ضرورت اور تیزرفتار فراہمی کا موثر ترین ذریعہ ہیں۔ غزہ کی جانب تمام سرحدی راستے کھلے رہنے چاہئیں اور وہاں سے امداد اٹھانے اور اسے غزہ بھر میں پہنچانے کے لیے محفوظ رسائی ملنا ضروری ہے۔

غذائی قلت کا علاج

'ڈبلیو ایچ او' کا کہنا ہے کہ وہ بچوں کو شدید درجے کی غذائی قلت سے بچانے کے لے اپنے شراکت داروں اور مقامی طبی حکام کے تعاون سے خصوصی خدمات مہیا کر رہا ہے۔ اب تک اس حوالے سے 68 بچوں کا علاج ہو چکا ہے تاہم لڑائی میں حالیہ شدت اور شمالی غزہ میں کمال عدوان ہسپتال بند ہو جانے سے ان خدمات کی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔ غزہ میں کم غذائیت کا شکار بچوں کے علاج کی سب سے بڑی سہولت اسی ہسپتال میں تھی۔

عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) اور اس کے شراکت داروں نے بتایا ہے کہ وہ گزشتہ 15 روز میں پانچ سال سے کم عمر کے 60 ہزار بچوں اور حاملہ و دودھ پلانے والی 22,820 ماؤں کو غذائیت مہیا کر چکے ہیں۔ 

'اوچا' کے ترجمان نے غزہ کے ساحل پر امریکہ کی جانب سے امدادی مقاصد کے لیے قائم کردہ تیرتے گھاٹ کے ٹوٹنے سے متعلق ایک سوال پر کہا کہ یہ افسوسناک واقع ہے۔ غزہ میں ہر ذریعے سے امداد کی فراہمی قابل قدر ہے تاہم اس مقصد کے لیے زمینی راستے ہی سب سے زیادہ کارآمد ہیں۔ سمندری راستے سے آنے والی امداد غزہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔