انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پاکستانی میجر دوبارہ زندگی ملنے پر پھر قیام امن میں مصروف

میجر فرقان نیازی کا تعلق اقوام متحدہ کی عبوری سکیورٹی فورس میں شامل پاک بٹالین سے ہے اور وہ ملک کے شورش زدہ علاقے ایبئے میں تعینات ہیں۔
UNISFA
میجر فرقان نیازی کا تعلق اقوام متحدہ کی عبوری سکیورٹی فورس میں شامل پاک بٹالین سے ہے اور وہ ملک کے شورش زدہ علاقے ایبئے میں تعینات ہیں۔

پاکستانی میجر دوبارہ زندگی ملنے پر پھر قیام امن میں مصروف

امن اور سلامتی

جنوبی سوڈان میں اقوام متحدہ کے امن مشن کے لیے کام کرتے ہوئے گولی کا نشانہ بننے والے میجر فرقان صحت یابی کے بعد مشن مکمل کرنے کا جذبہ لے کر دوبارہ اسی جگہ جا رہے ہیں جہاں ان کے کئی ساتھی امن قائم کرنے کی کوشش میں جانیں دے چکے ہیں۔

میجر فرقان نیازی کا تعلق اقوام متحدہ کی عبوری سکیورٹی فورس میں شامل پاک بٹالین سے ہے اور وہ ملک کے شورش زدہ علاقے ابییی میں تعینات ہیں۔ اقوام متحدہ کے امن اہلکار دنیا کے بعض انتہائی خطرناک اور ناسازگار مقامات پر کام کرتے ہیں اور ابیی بھی ایسا ہی علاقہ ہے۔ 

چند ماہ قبل اس علاقے میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے امن اہلکاروں کے قافلے کو اس وقت حملے کا نشانہ بنایا گیا جب وہ زخمی لوگوں کو ہسپتال منتقل کر رہے تھے۔اس حملے میں ایک اہلکار کی ہلاکت ہوئی اور دیگر دو زخمی ہو گئے جن میں میجر فرقان بھی شامل تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ جس روز یہ واقعہ پیش آیا اس وقت وہ گشت پر تھے۔ اس دوران انہیں ایک کال موصول ہوئی اور ایک جگہ ہنگامی مدد پہنچانے کو کہا گیا۔ جب وہ بتائے گئے مقام پر پہنچے تو وہاں متعدد زخمی لوگ موجود تھے جنہیں انہوں نے اپنی بکتر بند گاڑی میں منتقل کر دیا۔ 

ان میں پاکستان سے تعلق رکھنے والا طارق نامی فوجی اہلکار بھی شامل تھا جس کے بارے میں اس وقت ان کا خیال تھا کہ وہ اس کی زندگی بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے، تاہم وہ جانبر نہ ہو سکے۔

جب وہ اس علاقے سے نکلنے لگے تو ان کی بکتر بند گاڑی پر بھی فائرنگ کی گئی اور دو گولیاں میجر فرقان کو آ لگیں۔ ایک گولی ان کی بلٹ پروف جیکٹ نے روک لی جبکہ دوسرے ان کے جسم کے آر پار ہو گئی۔

جب یہ لوگ محفوظ مقام پر پہنچ گئے تو انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا۔ میجر فرقان کو پہلے انڈین ہیڈکوارٹرز میں لے جایا گیا جہاں ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد گھانا کے زیرانتظام چلائے جانے والے ثانوی درجے کے ہسپتال میں بھیج دیا گیا جہاں ان کا علاج معالجہ ہوا۔ 

یہ علاج دو ماہ تک جاری رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دوران اپنے گھر والوں کی یاد ہی ان کے لیے حوصلہ برقرار رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ تھی۔

اب وہ خود کو اپنے خاندان اور بچوں کے درمیان پا کر خوش قسمت تصور کرتے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ وہ اپنے مشن پر جلد از جلد واپسی کے لیے بھی بے چین ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دوبارہ اس جگہ جائیں گے جہاں بہت سے لوگوں نے اپنی زندگیاں کھوئیں اور وہ خود زخمی ہوئے جبکہ ان کے ساتھی امن اہلکار اپنی جان سے گئے۔

اپنا مشن مکمل کرنا واپسی کے حوالے سے ان کا سب سے بڑا محرک ہے اور وہ دوبارہ ان لوگوں لیے کام کرنے کے منتظر ہیں جن کے تحفظ کے لیے وہ ہمہ وقت تیار رہے ہیں۔