انسانی کہانیاں عالمی تناظر

آئی سی سی پراسیکیوٹر کی اسرائیلی و حماس قیادت کے وارنٹ گرفتاری کی درخواست

آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان سلامتی کونسل کے ارکان کو اپنی رپورٹ پیش کر رہے ہیں (فائل فوٹو)۔
UN Photo/Eskinder Debebe
آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان سلامتی کونسل کے ارکان کو اپنی رپورٹ پیش کر رہے ہیں (فائل فوٹو)۔

آئی سی سی پراسیکیوٹر کی اسرائیلی و حماس قیادت کے وارنٹ گرفتاری کی درخواست

امن اور سلامتی

عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے وکیل استغاثہ (پراسیکیوٹر) نے غزہ کے تنازع میں مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے کے الزام میں اسرائیلی کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو، وزیر دفاع یوآو گیلنٹ اور حماس کی قیادت کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کر دی ہے۔

'آئی سی سی' کے پراسیکیوٹر کریم خان کے مطابق یہ یقین کرنے کی معقول وجوہات موجود ہیں کہ حماس کے رہنما یحییٰ سنوار، محمد دیاب ابراہیم المصری (ضیف) اور اسماعیل ہنیہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملوں میں قتل، لوگوں کی ہلاکتوں اور انہیں یرغمال بنانے میں ملوث ہیں۔

Tweet URL

پراسیکیوٹر کے مطابق، یہ یقین کرنے کی بھی معقول بنیاد موجود ہےکہ اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآو گیلنٹ فلسطینی ریاست کی سرزمین پر انسانیت کے خلاف جرائم اور دیگر جرائم کے ارتکاب کے ذمہ دار ہیں۔ ان میں شہریوں کے خلاف بھوک کا بطور ہتھیار استعمال، بالارادہ شہری آبادی کے خلاف حملوں کا حکم دینا اور لوگوں کا قتل و خاتمہ کرنا بھی شامل ہے۔

رواں سال جنوری میں میکسیکو اور چلی نے 'آئی سی سی' میں درخواست دائر کی تھی جس میں عدالت سے غزہ کے تنازع میں مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے کہا گیا تھا۔ 

اگرچہ 'آئی سی سی' اقوام متحدہ کا ادارہ نہیں ہے تاہم اس کا اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کے معاہدہ ہے۔ جب کوئی معاملہ اس عدالت کے دائرہ اختیار میں نہ ہو تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اسے 'آئی سی سی' کو بھیج کر اس پر فیصلہ کرنے کا اختیار دیتی ہے۔

ناقابل بیان تکالیف

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کریم خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کے دفتر نے 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے متاثرین سے بھی بات چیت کی ہے۔ ان میں رہا ہونے والے یرغمالی اور اسرائیل کے علاقے کفر عزا، ہولیت، سپر نووا میوزک فیسٹیول کے مقام، بیئری، نیر اوز اور نہل اوز نامی جگہوں پر کیے گئے چھ بڑے حملوں کے عینی شاہدین بھی شامل ہیں۔ 

پراسیکیوٹر کے مطابق، حماس کے قائدین نے ان حملوں کی منصوبہ بندی کی اور دوسروں کو ان پر اکسایا۔ ان افراد نے یرغمالیوں کو اغوا کیے جانے کے بعد ان سے مل کر ثابت کیا کہ وہ ان جرائم کے ذمہ دار ہیں۔

متاثرین سے بات کر کے اندازہ ہوا کہ کس طرح ایک خاندان کی باہمی محبت، والدین اور بچے کے مابین گہرے رشتوں کو سوچی سمجھی سفاکی اور انتہائی بے رحمی کے ساتھ ناقابل بیان تکلیف پہنچانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

رہائی پانے والے یرغمالیوں کے ساتھ بات چیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو غیرانسانی حالات میں رکھا گیا جن میں بعض کو زیادتی سمیت جنسی تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 

بھوک کا بطور ہتھیار استعمال

پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع گیلنٹ بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے ذمہ دار قرار پائے ہیں۔ فلسطینیوں کو اسرائیل کی ریاستی پالیسی کے مطابق منظم انداز میں انسانیت کے خلاف جرائم کا نشانہ بنایا گیا۔ 

فلسطینی متاثرین اور عینی شاہدین کے ساتھ بات چیت، مصدقہ ویڈیوز، تصاویر، آڈیو اور سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل ہونے والے نقشوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ بھر میں دانستہ اور منظم طور سے شہری آبادی کو ایسی چیزوں سے محروم رکھا جو انسان کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔ 

امداد کی راہ میں دانستہ رکاوٹیں

کریم خان کے مطابق، 8 اکتوبر کے بعد اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کرتے ہوئے جنوب میں رفح اور کیریم شالوم جبکہ شمال میں ایریز کی سرحدی گزرگاہیں طویل عرصہ تک بند رکھیں۔ اس طرح خوراک اور ادویات سمیت ضروری اشیا کو غزہ پہنچنے سے دانستہ روکا گیا۔

اسرائیل کے محاصرے کے باعث غزہ پانی اور بجلی سے بھی محروم ہو گیا۔ خوراک کے لیے قطاریں بنا کر کھڑے لوگوں اور امدادی کارکنوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ نتیجتاً بہت سے امدادی اداروں نے اپنی کارروائیاں بند یا محدود کر دیں۔ 

اسرائیل کی اس ریاستی پالیسی کے اثرات شدید، واضح اور سب کے سامنے تھے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے دو ماہ قبل خبردار کیا تھا کہ غزہ کے 11 لاکھ لوگوں کو تباہ کن درجے کی بھوک کا سامنا ہے۔ یہ کسی بھی جگہ انسان کے لائے قحط سے متاثرہ لوگوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

انتہائی سنگین جرائم 

پراسیکیوٹر کے مطابق، اگرچہ بین الاقوامی قانون کے تحت اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے۔ تاہم لوگوں کو دانستہ ہلاک کرنا، انہیں بھوکا مارنا اور انہیں بہت بڑے پیمانے پر تکالیف پہنچانا 'آئی سی سی' کے بنیادی چارٹر کی کھلی پامالی ہیں جس پر 2002 میں روم میں دستخط کیے گئے تھے۔ اسرائیل روم معاہدے کا فریق نہیں ہے جبکہ فلسطین نے اس پر دستخط کر رکھے ہیں۔

کریم خان نے کہا ہے کہ وہ تواتر سے زور دیتے آئے ہیں کہ بین الاقوامی قانون اسرائیل سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ غزہ میں ضرورت کے مطابق انسانی امداد پہنچانے کی اجازت دینے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ بھوک کا بطور ہتھیار استعمال اور لوگوں کو انسانی امداد سے سے محروم رکھنا روم معاہدے کے تحت جرم ہیں۔ 

قانون سب کے لیے برابر

پراسیکیوٹر نے عدالت کے ججوں سے حماس کی قیادت، اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کے خلاف وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کرنے کے علاوہ یہ بھی کہا ہے کہ وہ 7 اکتوبر کے بعد کیے گئے مبینہ جرائم کی مزید تحقیقات بھی کر رہے ہیں۔ 

ان میں حماس کے زیرقیادت دہشت گرد حملوں کے دوران جنسی زیادتی کے الزامات اور غزہ میں بڑے پیمانے پر بمباری بھی شامل ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں شہری ہلاک و زخمی ہوئے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون اور مسلح جنگ کے حوالے سے قوانین کا اطلاق سبھی پر ہوتا ہے۔ کسی سپاہی، کسی کمانڈر اور کسی غیر فوجی رہنما کو اس سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ 

انہوں نے مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد پر بھی خدشات کا اظہار کیا اور کہا کہ بہت سے خواتین اور بچوں سمیت انسانوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح لوگوں کو یرغمال بنانے اور شہریوں کو حملوں کا نشانہ بنانے کا بھی کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے غزہ تنازع کے تمام فریقین پر قانون کی پاسداری کے لیے زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کے دفتر نے جب ضروری سمجھا تو دیگر لوگوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔