ہم سب افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں، گوتیرش کا دوحہ میں خطاب
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے افغان خواتین اور لڑکیوں پر پابندیوں کے فوری خاتمے کی ضرورت کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو ایسے افغانستان کی ضرورت ہے جو پُرامن ہو اور اپنی بین الاقوامی و قومی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔
سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لیے موثر طور سے انسانی امداد کی فراہمی اور مستقبل میں ترقی کے حوالے سے طویل مدتی منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یہ بات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان کے لیے علاقائی اور قومی سطح کے خصوصی نمائندوں کے دو روزہ اجلاس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہی۔ اس اجلاس میں افغانستان کی ترقی اور اس کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیے درکار اقدامات پر بات چیت کی گئی۔ تاہم افغانستان کی طالبان حکومت کے نمائندوں نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
عالمی برادری کا اتفاق
اجلاس میں افغانستان کے حوالے سے عالمی برادری کے مقاصد کے حصول کے طریقہ کار پر بھی اتفاق پایا گیا۔ اس ضمن میں ایک مربوط طریقہ کار سے متعلق غیرجانبدارانہ جائزے کی سفارشات بھی شامل ہیں۔ یہ جائزہ سیکرٹری جنرل کے مقرر کردہ خصوصی رابطہ کار فریدون سینرلیوغلو نے اقوام متحدہ کی قرارداد 2679 کے تحت لیا تھا۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس جائزے میں افغانستان کے حوالے سے تمام اہم امور کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس میں یہ یقینی بنانا بھی شامل ہے کہ افغانستان دوبارہ کبھی دہشت گرد سرگرمیوں کا گڑھ نہ بنے۔ اس کے بجائے یہ ایک واقعتاً مشمولہ ریاست ہو جس میں تمام سیاسی و سماجی گروہوں کو نمائندگی ملے۔
اس جائزے میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے حقوق برقرار رکھنے کی اہمیت کا تذکرہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ منشیات کی پیداوار اور سمگلنگ پر قابو پانے کے لیے ملک میں ہونے والی پیش رفت کا اعتراف بھی اس جائزے کا حصہ ہے ۔
انتونیو گوتیرش نے افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے مابین جاری تعاون کی اہمیت کا تذکرہ بھی کیا۔ اس میں تجارت و بنیادی ڈھانچے کی ترقی یا منشیات کی غیرقانونی تجارت سے نمٹنے کے لیے دو طرفہ معاہدے بھی شامل ہیں۔
حل طلب مسائل
سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے متعدد اہم سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔ ایک جانب اس ملک میں ایسی حکومت ہے جسے عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور کئی پہلوؤں سے یہ عالمی اداروں اور معیشت کا حصہ بھی نہیں ہے۔
دوسری جانب اس ملک میں انسانی حقوق خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کے حقوق سلب کیے جانے کے حوالے سے دنیا میں سبھی کو تشویش لاحق ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی حد تک یہ 'انڈا پہلے یا مرغی' والی صورت حال ہے۔ اس جمود پر قابو پانا اور افغانستان میں عالمی برداری کے خدشات کو رفع کرنے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینا ہو گا۔ اس حوالے سے افغانستان کے حکام کی بات بھی سننا ہو گی۔
طالبان کی ناقابل قبول شرائط
اجلاس میں طالبان حکام کی عدم شرکت کے بارے میں ایک سوال پر انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ طالبان نے اس میں شریک ہونے کے لیے پیشگی شرائط رکھیں جو ناقابل قبول تھیں۔
ان شرائط کے مطابق اجلاس میں افغان معاشرے کے دیگر نمائندوں سے کوئی بات نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کے علاوہ یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ افغان مندوبین سے ایسا سلوک کیا جائے جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکام سے کیا جاتا ہے۔
ایک اور سوال پر سیکرٹری جنرل نے کہا کہ یہ اجلاس کامیاب رہا اور اس میں جو بات چیت ہوئی اس کی اشد ضرورت تھی۔ اس کے بعد طالبان حکام کے ساتھ تبادلہء خیال کا موقع میسر ہونا بہتر ہوتا، تاہم آج نہیں تو مستقبل قریب میں ایسا ضرور ہو گا۔