غزہ میں بفر زون بنانے کا اسرائیلی منصوبہ ممکنہ جنگی جرم، ترک
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے ساتھ 'بفر زون' قائم کرنے کی کوشش جنگی جرم کے مترادف ہو سکتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیل کی فوج غزہ کی پٹی میں اپنے ملک کے ساتھ سرحدی باڑ سے ایک کلومیٹر کی حدود میں واقع تمام عمارتوں کو تباہ کر رہی ہے اور اس جگہ کو بفر زون بنانے کے لیے علاقہ 'صاف' کیا جا رہا ہے۔
وولکر تُرک نے اسرائیل کے حکام پر واضح کیا ہے کہ چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت قابض طاقت کا انتہائی ضروری عسکری مقاصد کے علاوہ عام لوگوں کی املاک کو تباہ کرنا غیرقانونی ہے۔
دانستہ اور غیرقانونی تباہی
گزشتہ برس اکتوبر کے بعد اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے اسرائیلی فوج کی جانب سے بڑے پیمانے پر رہائشی عمارتوں، سکولوں اور یونیورسٹیوں کو تباہ کیے جانے کی تفصیلات جمع کی ہیں۔ یہ تباہی ایسے علاقوں میں کی گئی ہے جو جنگ سے محفوظ رہے ہیں یا وہاں اب جنگ نہیں ہو رہی۔
ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ سلامتی کے عام مقاصد کے لیے بفر زون قائم کرنے کے لیے عمارتوں کو تباہ کرنے کا اقدام کنونشن میں دیے گئے استثنٰی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جنیوا کنونشن میں واضح طور پر درج ہے کہ کون سے عسکری مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے عمارتیں گرائی جا سکتی ہیں۔
اہم عسکری ضرورت کے بغیر، دانستہ اور غیرقانونی طور پر املاک کی بڑے پیمانے پر تباہی چوتھے جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی اور جنگی جرم کے مترادف ہے۔
شہریوں کی واپسی روکنے کا اقدام
دیگر جگہوں کے علاوہ شمالی غزہ کے علاقے بیت حنون، غزہ شہر میں شجائیہ اور وسطی غزہ کے علاق نصیرت کیمپ میں بھی عمارتوں کو تباہ کیا گیا ہے۔ حالیہ دنوں جنوبی علاقے خان یونس میں بھی بہت سی رہائشی عمارتوں کو تباہ کیے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
وولکر تُرک نے کہا ہے کہ اسرائیل نے شہری تنصیبات کو اس قدر بڑے پیمانے پر منہدم کرنے کی کوئی معقول وجوہات نہیں بتائیں۔ ایسے اقدامات کا بظاہر مقصد ان علاقوں میں لوگوں کی واپسی کو ناممکن بنانا ہے یا ایسے اقدامات کے نتیجے میں وہ اپنے علاقوں میں واپس نہیں آ سکیں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہےکہ شہریوں کو ان کے علاقوں سے جبراً نقل مکانی پر مجبور کرنا جنگی جرم کے مترادف ہو سکتا ہے۔