انسانی کہانیاں عالمی تناظر

بحرانوں میں طبی خدمات کی فراہمی کے لیے 1.5 ارب ڈالر کی ضرورت

سوڈان کے ہیضہ سے نمٹنے کے ایک طبی مرکز پر مریضوں کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔
© WHO/Ala Kheir
سوڈان کے ہیضہ سے نمٹنے کے ایک طبی مرکز پر مریضوں کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔

بحرانوں میں طبی خدمات کی فراہمی کے لیے 1.5 ارب ڈالر کی ضرورت

صحت

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے رواں سال مقبوضہ فلسطینی علاقے، یوکرین، سوڈان، شام اور شاخِ افریقہ سمیت دنیا میں جاری 41 بحرانوں کا سامنا کرنے والے 8 کرور 70 لاکھ لوگوں کے لیے 1.5 ارب ڈالر کی ہنگامی امداد فراہم کرنے کو کہا ہے۔

'ڈبلیو ایچ او' کا کہنا ہے کہ ہر انسانی بحران دراصل صحت کا بحران ہوتا ہے اور زندگی کو تحفظ دینے کے کام پر خرچ کیا جانے والا ہر ڈالر کم از کم 35 ڈالر کی بچت مہیا کرتا ہے۔

Tweet URL

یہ اپیل ایسے موقع پر کی گئی ہے جب موسمیاتی تبدیلی، خشک سالی اور دیگر کڑے موسمی واقعات غذائی عدم تحفظ، تنازعات اور نقل مکانی کے اثرات کو بدترین بنا رہے ہیں۔ ان حالات میں شدید اور پیچیدہ نوعیت کے طبی مسائل جنم لے رہے ہیں جس سے نظام ہائے صحت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

چھوٹی سی قیمت

'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہےکہ طبی بحرانوں کے نتیجے میں آنے والی انسانی تکالیف کو کم کرنے کے دو ہی راستے ہیں۔ ان میں ایک مالی مدد میں اضافہ کرنا اور دوسرا ضروریات میں کمی لانا ہے۔ تاہم اس وقت کسی طریقے سے کام نہیں لیا جا رہا اور بے عملی کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ 

جنیوا میں ادارے کے ہیڈکوارٹر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے عطیہ دہندگان اور حکومتوں پر زور دیا کہ وہ بحران زدہ لوگوں کے لیے امداد میں اضافہ کریں۔

ہنگامی امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار مارٹن گرفتھس نے 'ڈبلیو ایچ او' کی اپیل کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتہائی غیرمحفوظ لوگوں کی صحت کو تحفظ دینے اور عالمگیر طبی بحران کو بڑھنے سے روکنے پر کچھ زیادہ خرچ نہیں آتا۔ 

ان کا کہنا ہے کہ سوڈان میں نو ماہ سے جاری جنگ کے باعث اس کے طبی نظام کو شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ اس سے روزانہ علاج معالجے کے ضرورت مند اور جنگ میں زخمی ہونے والے شہریوں کو کڑی مشکلات درپیش ہیں۔بیماری کی نگرانی کا عمل کمزور پڑنے اور قابل انسداد امراض سے تحفظ کے لیے ویکسین کی مناسب مقدار میں عدم دستیابی سے علاقے میں خسرے کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔

ہیٹی، صومالیہ، یمن اور دنیا کے متعدد دیگر ممالک کو بھی انہی حالات کا سامنا ہے جہاں وسیع تر انسانی بحران ہیضے جیسی بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث بن رہے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب لوگوں کو پانی سے پھیلنے والی اس بیماری سے خطرہ لاحق ہے۔ 

طبی نظام دوراہے پر 

مارٹن گرفتھس کا کہنا ہے کہ اس وقت عالمگیر صحت کو جس طرح کے خطرات لاحق ہیں اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ گزشتہ برس 19 ممالک میں طبی سہولیات پر 1,300 حملے ہوئے جن میں 700 سے زیادہ طبی کارکن اور مریض ہلاک اور 1,100 زخمی ہو گئے۔ 

غزہ میں حماس اور اسرائیل کی حالیہ جنگ شروع ہونے کے بعد مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں طبی مراکز پر 624 حملے ہوئے جن میں 619 طبی کارکن اور مریض ہلاک جبکہ 826 زخمی ہو چکے ہیں۔ 

جنگ کا 'ہتھیار'

انہوں نے کہا کہ دنیا ایسے دور سے گزر رہی ہے جس میں طبی سہولیات پر حملے جنگی چال بن گئے ہیں۔ ایسی کارروائیوں کو اچھے الفاظ میں جنگ کا ثانوی یا حادثاتی نقصان نہیں کہا جا سکتا بلکہ بنیادی طور پر یہ جنگی ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہیں جن سے دہشت بڑھانے اور لوگوں کو طبی خدمات سے محروم رکھنے کا کام لیا جاتا ہے۔ 

جنیوا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طبی خدمات کی دستیابی لوگوں کو اکٹھا رکھتی ہے۔ لہٰذا طبی خدمات کا نقصان اجتماعیت کا احساس ختم ہونے کا آغاز ہوتا ہے۔ 

'ڈبلیو ایچ او' کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد طبی نظام پر 1,400 سے زیادہ حملے ہو چکے ہیں۔ ان میں 14 حملے گزشتہ برس 29 دسمبر کے بعد ہوئے۔ 

امدادی وسائل میں کمی

ڈنیز براؤن نے یوکرین میں کام کرنے والے طبی ماہرین کے کام کو سراہا جنہیں 'ڈبلیو ایچ او' اور دیگر اداروں کی جانب سے فوری تعاون درکار ہے۔ تاہم انہوں نے رواں برس امدادی وسائل میں ممکنہ کمی پر خدشات کا اظہار بھی کیا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ جنگ ختم نہیں ہوئی۔ لوگوں بدستور تکالیف کا سامنا  کر رہے ہیں اور ایسے میں طبی خدمات کی فراہمی سمیت اقوام متحدہ کے کام کو جاری رکھنے کے لیے رکن ممالک کا تعاون بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

یاد رہے کہ سوموار کو اقوام متحدہ نے یوکرین کے لیے 4.2 ارب ڈالر کی امداد مہیا کرنے کی اپیل کی ہے۔