انسانی کہانیاں عالمی تناظر

یو این چیف کی فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینے کی مذمت اور جنگ بندی کا مطالبہ

غزہ میں بچے کھانا تقسیم ہونے کا بھوک کے مارے بیتابی سے انتظار کر رہے ہیں۔
© UNICEF/Abed Zagout
غزہ میں بچے کھانا تقسیم ہونے کا بھوک کے مارے بیتابی سے انتظار کر رہے ہیں۔

یو این چیف کی فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینے کی مذمت اور جنگ بندی کا مطالبہ

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے غزہ کے شہریوں کو محفوظ انداز میں اور بڑے پیمانے پر امداد فراہم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ صرف جنگ بندی ہی اس بحران کو روکنےکا واحد راستہ ہے۔

اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں ںے غزہ میں انسانی جانوں کے غیرمعمولی نقصان اور علاقے میں تباہ کن انسانی حالات پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

Tweet URL

ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو دی جانے والی اجتماعی سزا کا کوئی جواز نہیں۔ غزہ میں انسانی حالات ناقابل بیان ہیں جہاں کسی جگہ کوئی بھی فرد محفوظ نہیں رہا۔ 

یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ

انہوں نے مطالبہ کیا کہ 7 اکتوبر کو حماس اور دیگر جنگجوؤں کی جانب سے اغوا کیے گئے اسرائیلی شہریوں کو فوری اور غیرمشروط طور پر رہا کیا جائے۔

سیکرٹری جنرل نے فلسطینی جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل پر حملے میں جنسی تشدد کے مبینہ ارتکاب کی مفصل تحقیقات کے لیے بھی کہا۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی فوج کے حملوں سے غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ اس دوران جتنی بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں اس کی بحیثیت سیکرٹری جنرل ان کے دور میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔

امدادی کارکنوں کی کاوشیں

سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ امدادی کارکن بے پایاں دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے غزہ میں مدد پہنچانے کے لیے اپنی بہترین کوششیں کر رہے ہیں جبکہ انہیں تحفظ کی کوئی ضمانت حاصل نہیں۔ 

اس بحران میں اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والے 152 افراد کی ہلاکت بھی ہوئی ہے۔ یہ ادارے کی تاریخ میں کسی ایک تنازع میں ہونے والا اس کا سب سے بڑا انسانی نقصان ہے۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کے مطابق غزہ میں 19 لاکھ لوگ یا علاقے کی 85 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ ان میں بہت سے لوگوں کو کئی مرتبہ نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 23,700 فلسطینی ہلاک اور تقریباً 60,000 زخمی ہو چکے ہیں۔

امداد کی فراہمی میں رکاوٹیں

انتونیو گوتیرش نے کہا کہ غزہ میں مدد مہیا کرنے کی راہ میں واضح رکاوٹیں حائل ہیں۔ وسیع پیمانے پر شدید اور متواتر بم باری کے باعث علاقے میں انسانی امداد کی موثر فراہمی ناممکن ہو گئی ہے۔

اشد ضرورت کے طبی سازوسامان اور پانی فراہم کرنے کی تنصیبات کی مرمت کے لیے درکار پرزوں کو غزہ میں لانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جب کسی چیز کو علاقے میں لانے سے روکا جاتا ہے تو پھر پورے سامان کی جانچ پڑتال کا طویل عمل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ کسی علاقے میں امداد بھیجنے پر پابندی، غیرمحفوظ راستے اور مواصلاتی رابطوں کے متواتر انقطاع جیسی رکاوٹیں اس کے علاوہ ہیں۔

لوگ غزہ کے شمالی حصے میں بمباری سے تباہ حال اپنے گھروں کے پاس سے گزر رہے ہیں۔
© UNICEF/Omar Al-Qattaa

کشیدگی پھیلنےکا خدشہ

سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ضروری اشیا کی تجارتی پیمانے پر فراہمی میں فوری اور بڑے پیمانے پر اضافہ ہونا چاہیے۔ غزہ کی پوری آبادی کے لیے ضروریات زندگی کی اشیا بازاروں میں دستیاب ہونا بھی ضروری ہے۔

انہوں متحارب فریقین سے کہا کہ وہ بین الاقوامی قانون کا احترام کریں شہریوں کو تحفظ دیں اور ان کی اہم ضروریات کی تکمیل یقینی بنائیں۔

مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ کی جنگ کے نتیجے میں بحیرہ احمر اور اس سے پرے تناؤ شدت اختیار کر چکا ہے اور حالات بے قابو ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے لبنان اور اسرائیل کی سرحد (بلیو لائن) پر فائرنگ کے تبادلے کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھ رہی ہے جو خطے کے استحکام کو بری طرح متاثر کرے گی۔ 

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں تمام فریقین کو ایک سادہ اور براہ راست پیغام دینا ان کی ذمہ داری ہے اور وہ یہ کہ "بلیو لائن کے آر پار کشیدگی سے اجتناب برتا جائے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کی مطابقت سے تنازعات کو روکا جائے۔" 

جنگ بندی کی ضرورت

انتونیو گوتیرش نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی ہی بڑے پیمانے پر کشیدگی کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔ جب تک یہ جنگ جاری رہے گی اس تنازع کے پھیلاؤ کا خدشہ بڑھتا جائے گا۔

اپنی بات کے اختتام پر ان کا کہنا تھا کہ "ہم جو کچھ غزہ میں دیکھ رہے ہیں اسے لبنان میں ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اسے جاری رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔"