غزہ میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھنا انتہائی کٹھن، مارٹن گرفتھس
ہنگامی امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار مارٹن گرفتھس نے اسرائیلی فوج اور فسلطینی جنگجوؤں کو شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری یاد دلاتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ غزہ ناقابل رہائش علاقہ بن چکا ہے۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کی بقا کو متواتر سنگین خطرات لاحق ہیں جبکہ دنیا بے حسی سے یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہی ہے۔
علاقے میں بگڑتے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ صورتحال میں بہتری کی امیدیں ماند پڑتی جا رہی ہیں۔
امدادی اداروں کو 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں تک مدد پہنچانے کا ناممکن کام درپیش ہے جبکہ ان کے اپنے عملے کے ارکان ہلاک اور بے گھر ہو رہے ہیں۔ مواصلاتی رابطے منقطع ہیں، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں، امدادی قافلے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں اور بقا کے درکار اشیا وجود نہیں رکھتیں۔
قحط پھیلنے کا خدشہ
مارٹن گرفتھس کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کے ہولناک حملوں سے تین ماہ بعد غزہ موت اور مایوسی کی جگہ بن چکا ہے جہاں صحت عامہ روز بروز تباہی کا شکار ہو رہی ہے۔
گنجائش سے کہیں زیادہ بھری پناہ گاہوں میں متعدی بیماریاں پھیل رہی ہیں جہاں نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ ان ابتر حالات میں روزانہ 180 فلسطینی خواتین بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔ لوگوں کو انتہائی درجے کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے جو پہلے نہیں دیکھا گیا۔ علاقے میں قحط کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔
جنگ بندی ضروری
فلسطینی جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ باری جاری ہے جبکہ 120 افراد تاحال غزہ میں یرغمال ہیں۔ مغربی کنارے میں کشیدگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور اس تنازع کے خطے بھر میں پھیلنے کا خطرہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ناصرف غزہ اور اس کے ہمسایہ ممالک کے لوگوں کی خاطر بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اس جنگ کا خاتمہ ضروری ہے جو انسانیت پر اس 90 روزہ تباہی کو کبھی بھلا نہیں سکیں گی۔
انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اس جنگ کو بند کرانے، شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے اور تمام یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنانے کے لیے اپنا ہرممکن اثرورسوخ استعمال کریں۔