انسانی کہانیاں عالمی تناظر

بچوں کی بازاری خوراک میں شکر اور نمک کی نقصان دہ مقدار

تجارتی پیمانے پر پیدا کی جانے والی 'فارمولا غذائیں' جنوب مشرقی ایشیا میں چھوٹے بچوں کی عام خوراک ہیں۔
©UNICEF/Linh Pham/AFP-Services
تجارتی پیمانے پر پیدا کی جانے والی 'فارمولا غذائیں' جنوب مشرقی ایشیا میں چھوٹے بچوں کی عام خوراک ہیں۔

بچوں کی بازاری خوراک میں شکر اور نمک کی نقصان دہ مقدار

صحت

یونیسف کی معاونت سے ہونے والی ایک نئی تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا میں 6 ماہ سے 3 سال تک عمر کے بچوں کے لیے تجارتی پیمانے پر تیار کی جانے والی ڈبہ بند خوراک میں شکر اور نمک کی نقصان دہ حد تک بھاری مقدار پائی جاتی ہے۔

ایسی مصنوعات کی تشہیر کے لیے بڑے پیمانے پر خلاف حقیقت دعوے کیے جاتے ہیں۔ ان چیزوں میں استعمال ہونے والے اجزا کی مقدار کے تعین اور ان کی فروخت کے حوالے سے حکومتی سطح پر مناسب قانون سازی بھی نہیں کی گئی۔

Tweet URL

اس تحقیق میں زیرجائزہ رہنے والی تقریباً نصف (44 فیصد) غذاؤں میں فاضل شکر اور مٹھاس پیدا کرنے والے مادے شامل ہوتے ہیں۔ تلی ہوئی اشیا اور 'فنگر فوڈز' میں ان کی مقدار طبی معیار سے 72 فیصد زیادہ پائی گئی ہے۔ اسی طرح ایک تہائی سے زیادہ غذائیں ایسی ہیں جن میں نمک کی مقدار مقررہ پیمانے سے زیادہ ہوتی ہے۔

اس تحقیق کے لیے یونیسف اور 'جنوب مشرقی ایشیا میں فارمولا غذاؤں کو بہتر بنانے کے کنسورشیم' (کومیٹ) میں شامل شراکت داروں نے معاونت مہیا کی ہے۔ اس میں کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤ، ملائشیا اور فلپائن میں چھوٹے بچوں کے لیے بنائے جانے والے دلیے، گوشت کے شوربے، پھلوں سے بنی خوراک، تلی ہوئی اشیا اور تیار کھانوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ تحقیق سات ممالک میں صارفین کے رحجانات اور ایسی خوراک کے حوالے سے موجودہ ضابطوں کا احاطہ بھی کرتی ہے۔

ضابطوں کا فقدان 

تجارتی پیمانے پر پیدا کی جانے والی 'فارمولا غذائیں' جنوب مشرقی ایشیا میں چھوٹے بچوں کی عام خوراک ہیں۔ شہری علاقوں کی 79 ماؤں نے بتایا ہے کہ وہ روزانہ اپنے چھوٹے بچوں کو یہ خوراک دیتی ہیں۔ گزشتہ پانچ سال میں پورے جنوب مشرقی ایشیا میں ان غذاؤں کی تجارتی پیمانے پر تیاری میں 45 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ 

مشرقی ایشیا اور الکاہل خطے کے لیے یونیسف کی ریجنل ڈائریکٹر ڈیبورا کومینی نے کہا ہے کہ بہت چھوٹے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے بازار میں موجود غذائیں صحت بخش نہیں ہیں۔ عام طور پر انہیں ایسے انداز  میں پیش کیا جاتا ہے کہ والدین دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے اور ان کے والدین بہتر کے حق دار ہیں۔

زیرجائزہ رہنے والے جنوبی مشرقی ایشیا کے سات میں سے کسی بھی ملک میں ایسی غذاؤں کے اجزا کی مقدار اور ان کی تشہیر کے حوالے سے قومی سطح پر بین الاقوامی معیارات یقینی بنانے کی کوئی پالیسی وجود نہیں رکھتی۔ متعدد ممالک میں ان غذاؤں میں شکر یا نمک کی مقدار کو باضابطہ رکھنے سے متعلق کوئی قانونی اقدامات نہیں کیے گئے۔ جن ممالک نے خوراک میں شکر اور نمک کے استعمال کی بابت کوئی حدود مقرر کر رکھی ہیں ان کا اطلاق عموماً اناج کے دلیے اور تلی ہوئی اشیا پر ہی ہوتا ہے۔ تاہم ان کے تحت جتنی مقدار میں شکر اور نمک کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے وہ بین الاقوامی معیار سے کہیں زیادہ ہے۔ 

ابتدائی عمر میں شکر کے زیادہ استعمال سے دانت خراب ہو جاتے ہیں، وزن بڑھ جاتا ہے اور کھانے پینے کی عادات بگڑ جاتی ہیں۔ نمک کی زیادہ مقدار سے بلند فشار خون جیسے مسائل جنم لیتے ہیں اور ان کے اثرات عمر بھر رہتے ہیں۔ 

گمراہ کن تشہیر 

تحقیق میں ایسی 90 غذاؤں کی افادیت کے حوالے سے بڑے پیمانے پر گمراہ کن دعوے کیے جانے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ اس ضمن میں عام طور پر خوراک کے پیکٹ یا ڈبوں پر 'قدرتی اجزا سے تیار شدہ'، 'حیاتین کے حصول کا بہترین ذریعہ' اور 'مصنوعی اجزا سے پاک' جیسے دعوے دیکھے جا سکتے ہیں۔ 

مزید برآں، کمبوڈیا، فلپائن اور لاؤ میں خوراک کے پیکٹ اور ڈبوں پر ان کے بارے میں تفصیلات انگریزی یا کسی اور غیرملکی زبان میں لکھی ہوتی ہیں۔ اس طرح والدین کو اندازہ نہیں ہو پاتا کہ ان کے بچے کیا کھا رہے ہیں۔ 

کومینی نے واضح کیا کہ حکومتیں اور خوراک کے پیداکار چھوٹے بچوں کی صحت کو تحفط دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور انہیں کرنا چاہیے۔ ابتدائی عمر میں اچھی غذائیت سے بچوں کو بہتر نشوونما میں مدد ملتی ہے۔ اس طرح خاندان خوشحالی پاتے ہیں، مفید افرادی قوت سامنے آتی ہے اور معیشتوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ 

اس سے برعکس ناقص غذائیت سے نشوونما میں رکاوٹ، جسمانی کمزوری، جسم میں قلیل مُغَذی اجزا کی کمی، موٹاپا اور کئی طرح کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ اس سے بچوں اور ان کے والدین کے علاوہ طبی نظام اور معیشتوں کو بھی نقصان ہوتا ہے۔ 

یونیسف اور 'کومیٹ' کے شراکت داروں نے کہا ہے کہ: 

  • تجارتی پیمانے پر تیار کی جانے والی 'فارمولا غذاؤں' کے لیے سرکاری سطح پر ضوابط بہتر بنائے جائیں۔ ان میں شکر اور مٹھاس پیدا کرنے والے اجزا کی اضافی مقدار کی شمولیت کی ممانعت، شکر اور نمک کی مقدار میں کمی لانے اور گمراہ کن تشہیر کی روک تھام سے متعلق قوانین بھی شامل ہیں۔
  • ایسی غذاؤں کی تجارتی پیمانے پر تیاری کے حوالے سے سرکاری سطح پر کڑی نگرانی اور قومی ضابطوں کے سختی سے اطلاق کا اہتمام کیا جائے۔
  • والدین کو چھوٹے بچوں کے لیے متنوع صحت بخش غذاؤں کی فراہمی میں مدد دی جائے اور انہیں گمراہ کن تشہیری ہتھکندوں کی بابت آگاہی مہیا کی جائے۔