انسانی کہانیاں عالمی تناظر

جانیے: غزہ کے بحران کے دوران حقائق تلاش کرنے کی کوششیں

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے امدادی ادارے ’انرا‘ کے ایک سکول میں پناہ لیے بچے ڈبیلو ایف پی کی طرف سے تقسیم کیا گیا کھانا کھاتے ہوئے۔
© WFP/Ali Jadallah
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے امدادی ادارے ’انرا‘ کے ایک سکول میں پناہ لیے بچے ڈبیلو ایف پی کی طرف سے تقسیم کیا گیا کھانا کھاتے ہوئے۔

جانیے: غزہ کے بحران کے دوران حقائق تلاش کرنے کی کوششیں

امن اور سلامتی

غزہ کو درکار انتہائی ضروری امداد کی فراہمی کا آغاز ہوتے ہی حقائق پر جنگ بھی شروع ہو گئی ہے اور علاقے کی صورت حال کے بارے میں سوشل میڈیا پر متضاد بیانیوں کا زوروشور سے پھیلاؤ جاری ہے۔

7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد آن لائن دنیا میں اس تنازع کے بارے میں نقصان دہ حد تک غلط اطلاعات زیرگردش ہیں جن سے ممکنہ طور پر علاقے کی صورتحال پر بھی سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ 

غلط اطلاع عام طور پر نادانستہ یا حادثاتی طور پر پھیلنے والی ایسی خبر یا اطلاع ہوتی ہے جس کا حقیقت سے تعلق نہ ہو جبکہ گمراہ کن اطلاعات ریاستی یا غیرریاستی کرداروں کی جانب سے دانستہ طور پر پھیلائی جاتی ہیں۔

اس میں مسلح تنازع کے دوران پھیلائی جانے والی خبریں بھی شامل ہیں جن کا مقصد عام لوگوں یا سیاسی رائے پر اثرانداز ہونا ہے۔ ایسی اطلاعات سے امن و سلامتی سے لے کر انسانی امداد تک ہر عمل متاثر ہوتا ہے۔ 

یو این نیوز نے یہ جائزہ لیا ہے کہ اسرائیل۔غزہ تنازع میں آن لائن دنیا کے حالات کیا ہیں اور اقوام متحدہ سچائی کے لیے کیسے لڑ رہا ہے۔

غزہ کے جنوبی علاقے رفع میں لوگوں میں پینے کا پانی تقسیم کیا جا رہا ہے۔
© UNICEF/Eyad El Baba
غزہ کے جنوبی علاقے رفع میں لوگوں میں پینے کا پانی تقسیم کیا جا رہا ہے۔

گمراہ کن اطلاعات کا مقابلہ 

دنیا کی نظریں مصر میں رفح کے سرحدی راستے پر لگی ہیں جہاں گزشتہ ہفتے امدادی سامان سے لدے ٹرک غزہ میں داخل ہوئے تھے۔

اس کے ساتھ ہی ان ٹرکوں میں موجود سامان اور 140 مربع میل پر محیط زیر محاصرہ علاقے میں یہ امداد پہنچانے کے طریقہ کار کے حوالے سے گمراہ کن اطلاعات بھی پھیلنے لگیں جہاں 23 لاکھ آبادی میں سے تقریباً 14 لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ 

گمراہ کن اطلاعات کا سدباب کرنے اور 'اطلاعاتی دیانت' کو فروغ دینے کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے حقائق سامنے لا رہے ہیں اور نقصان کا باعث بننے والی غلط اطلاعات کے ابطال میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں میڈیا سے رابطے کر کے ان کے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر بتایا جا رہا ہے کہ غزہ کی اصل صورتحال کیا ہے۔ 

گندم کی مفت فراہمی 

سوشل میڈیا کے متعدد پلیٹ فارمز پر ایسی اطلاعات زیرگردش ہیں جن میں غلط طور سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ غزہ میں مہنگے داموں گندم کی بوریاں فروخت کر رہا ہے۔ 

درحقیقت، فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کا امدادی ادارہ 'انرا' پناہ گاہوں میں موجود لوگوں کو متواتر روٹی فراہم کر رہا ہے اور اس نے علاقے میں 16 تنوروں کو روٹی کی مقدار بڑھانے کے لیے گندم کا آٹا مفت مہیا کیا ہے۔ 

ادارے کی جانب سے علاقے کی صورتحال کے بارے میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بےگھر ہو جانے والے خاندانوں کو مدد دینے اور روٹی کی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے 'انرا' مقامی تنوروں کو آٹا مہیا کر رہا ہے تاکہ وہ لوگوں کو سستے داموں روٹی مہیا کر سکیں۔ یہ ادارہ 1950 سے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے کام کر رہا ہے اور غزہ میں انسانی امداد فراہم کرنے والا اقوام متحدہ کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ 

ادارے کے اطلاعاتی شعبے کی سربراہ عالیہ ذکی نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے بھی غزہ بھر میں 23 تنوروں کو آٹے کے مفت تھیلے فراہم کیے ہیں۔

امدادی قافلے رفع کے راستے غزہ میں داخل ہو رہے ہیں۔
© UNICEF/Eyad El Baba
امدادی قافلے رفع کے راستے غزہ میں داخل ہو رہے ہیں۔

پناہ گاہوں میں خوراک کی فراہمی 

7 اکتوبر کے بعد غزہ میں اقوام متحدہ کے زیرانتظام خوراک کی تقسیم کے مراکز اور اس کی متعدد پناہ گاہیں بمباری اور اسرائیلی فوج کی جانب سے لوگوں کو دیے گئے انخلا کے احکامات کی وجہ سے بند ہو گئی ہیں۔ 

اسی لیے امدادی کارکن حالیہ دنوں علاقے میں پہنچنے والی امداد 'انرا' کے 150 مراکز میں براہ راست مہیا کر رہے ہیں جہاں 630,000 سے زیادہ لوگوں نے بمباری سے بچنے کے لیے پناہ لے رکھی ہے۔ 

'ڈبلیو ایف پی' کی سربراہ سنڈی مکین نے بتایا ہے کہ امدادی قافلوں کی آمد کے بعد ادارے نے نصف ملین لوگوں کو خوراک مہیا کی ہے۔ 

مفت امداد

انسانی امداد کبھی فروخت نہیں کی گئی

2022 میں یوکرین میں گمراہ کن اطلاعات پھیلائے جانے کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے اس بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ "ادارہ انسانی امداد کی فراہمی کے کسی مرحلے میں کوئی قیمت وصول نہیں کرتا۔" 

غزہ میں حالیہ تنازع سے قبل سرحد پار سے کم از کم 100 امدادی ٹرک آتے تھے۔ اقوام متحدہ کے اداروں کے مطابق اس امداد سے علاقے میں ضرورت مند لوگوں کی 60 فیصد سے زیادہ تعداد کو مدد ملتی تھی۔ یہ سلسلہ 2007 میں حماس کے برسراقتدار آنے کے بعد مصر اور اسرائیل کی جانب سے علاقے کی ناکہ بندی کے بعد شروع ہوا تھا۔ 

مقبوضہ فلسطینی علاقے کے لیے اقوام متحدہ کی امدادی رابطہ کار لین ہیسٹنگز نے بتایا ہے کہ اکتوبر سے اب تک امدادی سامان کے 74 ٹرک علاقے میں آ چکے ہیں۔

غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء کی خرید و فروخت سمیت ہر طرح کی کارروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔
© UNRWA/Mohammed Hinnawi
غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء کی خرید و فروخت سمیت ہر طرح کی کارروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔

خوراک کی مفت تقسیم

عالیہ ذکی نے یو این نیوز کو بتایا کہ غزہ میں بھیجی جانے والی حالیہ امداد میں خوراک، ادویات اور پانی پر مشتمل انتہائی ضروری اشیا شامل ہیں۔ 

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر 'او سی ایچ اے' نے بتایا ہے کہ پہلے امدادی قافلے کی صورت میں آنے والے 20 ٹرکوں میں سے پانچ خوراک لے کر آئے تھے۔ ان میں تین ٹرکوں کے ذریعے خوراک کے پیکٹ اور دو میں ڈبہ بند ٹونا مچھلی بھیجی گئی۔ 

تاہم محدود ترسیل اور ایندھن کی قلت کے باعث 'ڈبلیو ایف پی' کو ضرورت مند لوگوں میں محدود مقدار میں خوراک تقسیم کرنا پڑ رہی ہے تاکہ یہ مدد زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔ 

غلط خبروں کی روک تھام

اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل برائے عالمگیر اطلاعات میلیسا فلیمنگ نے حالیہ دنوں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ جائزے یہ ثابت کرتے ہیں کہ جھوٹ کے پھیلنے کی رفتار حقائق کے مقابلے میں کہیں تیز ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ "جنگ کے دوران ایک مرتبہ پھر آن لائن ذرائع سے نفرت اور جھوٹ کو پھیلایا جا رہا ہے جس کا نتیجہ موجودہ حالات اور حقیقی دنیا میں خطرناک غلطیوں کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ نفرت پر مبنی اظہار، غلط اور گمراہ کن اطلاعات جو پہلے ہی زوروں پر تھیں اب سوشل میڈیا کی فیڈ پر چھائی ہوئی ہیں جن سے تشدد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔" 

اقوام متحدہ کے ادارے لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرنے اور غلط خبروں کے ارتداد کے لیے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر تواتر سے آگاہی دیتے ہیں۔ 

میلیسا فلیمنگ اس حوالے سے یہ تجویز کرتی ہیں کہ "اطلاعات کو سنتے، دیکھتے اور پڑھتے وقت تحمل سے کام لیں۔ ہم سب کو چوبیس گھنٹے تازہ ترین اطلاعات سے آگاہ رہنے کی عادت ہو گئی ہے۔ تاہم غلط اور گمراہ کن اطلاعات کی بھرمار کے ہوتے ہوئے حقائق تک پہنچنا آسان نہیں۔ ہمیں اپنی توقعات کو  نئے سرے سے ترتیب دینا ہو گا۔"

غزہ میں ’انرا‘ کے ایک سکول میں پناہ لیے ہوئے افراد کے لیے روٹیاں پہنچائی جا رہی ہیں۔
© WFP/Ali Jadallah
غزہ میں ’انرا‘ کے ایک سکول میں پناہ لیے ہوئے افراد کے لیے روٹیاں پہنچائی جا رہی ہیں۔

حقائق کی درستگی

مسلح تنازعات کے دوران عام طور پر غیریقینی غلبہ پا لیتی ہے اور نادانستہ طور سے حقائق کی غلط تشریح کا امکان رہتا ہے۔ اقوام متحدہ اسے گمراہ کن اطلاعات کے بجائے غلط اطلاعات قرار دیتا ہے۔ 

میلیسا فلیمنگ کے مطابق، اس موقع پر اقوام متحدہ مصدقہ ذرائع سے خبروں کے حصول کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اطلاعاتی ذرائع پر زور دیتا ہے کہ وہ نقصان دہ مواد کا پھیلاؤ روکنے کے اقدامات پر عمل پیرا ہونے کی کوششیں تیز کریں۔ 

غزہ کے تنازع کو دو ہفتے گزرنے کے بعد سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن بشمول ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے پر یہ دعوے کیے گئے کہ ایندھن کے ٹینکر غزہ میں آ رہے ہیں جبکہ اس وقت رفح کی سرحد بند تھی۔ 

'انرا' کی ڈائریکٹر اطلاعات جولیٹ ٹوما نے اس بارے میں ریکارڈ درست رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بات کی۔ 

اس موقع پر انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ "کیا آپ حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کریں گے؟، دراصل ویڈیو میں دکھائی دینے والے ٹینکر پہلے ہی غزہ میں موجود تھے جو 'انرا' کے پاس محدود ہوتے ذخیرے سے تیل لے کر مطلوبہ مقامات تک پہنچانے جا رہے ہیں۔ اب میں فون اٹھا رہی ہوں تاکہ اگر میری بات غلط ہے تو اسے درست کیجیے۔"

اقوام متحدہ کی جانب سے گمراہ کن اطلاعات کی روک تھام کے طریقہ کار کے بارے میں یہاں مزید جانیے۔