انسانی کہانیاں عالمی تناظر

خلاء میں پائیداریت یقینی بنانے کے لیے نگرانی ضروری: گوتیرش

ناسا کے خلاء نورد سکاٹ کیلی 2015 میں ایک مشن کے دوران خلاء میں چہل قدمی کر رہے ہیں۔
NASA/Johnson
ناسا کے خلاء نورد سکاٹ کیلی 2015 میں ایک مشن کے دوران خلاء میں چہل قدمی کر رہے ہیں۔

خلاء میں پائیداریت یقینی بنانے کے لیے نگرانی ضروری: گوتیرش

پائیدار ترقی کے اہداف

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے بدھ کو شائع ہونے والے ایک نئے پالیسی بریف میں کہا ہے کہ اختراع کی رفتار تیز کرنے اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کے لئے بیرونی خلا کا موثر انتظام ضروری ہے۔

پالیسی بریف کے تعارف میں انہوں نے لکھا ہے کہ "بیرونی خلا میں اپنی قلمرو کو محفوظ رکھنے میں ہم سب کا مفاد ہے اور یہ انسانیت کا ایک ایسا علاقہ ہے جس سے ہم سب کو فائدہ ہوتا ہے اور اس کے انتظام کے لئے مستعد اور کثیر فریقی اقدامات درکار ہیں۔"

Tweet URL

اس پالیسی بریف میں بیرونی خلا میں جاری بعض "بے مثال" تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں زمینی مدار میں بہت بڑی تعداد میں مصںوعی سیارے چھوڑے جانا، خلائی شعبے میں نجی شعبے کی شرکت اور نصف صدی سے زیادہ عرصہ کے بعد خلابازوں کو دور دراز خلا میں بھیجنے جیسے معاملات شامل ہیں۔

یہ بریف "خلائی استحکام" پر اثرانداز ہونے والے بڑے رحجانات اور 2030 تک مزید مںصفانہ، مساوی اور ماحول دوست زمین سے متعلق ایس ڈی جی کے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے پر ان کے اثرات کا خاکہ پیش کرنے کے ساتھ حل طلب مسائل سے لاحق خطرات کے بارے میں بھی بتاتا ہے۔

مصنوعی سیارے اور خلائی سیاحت

گزشتہ دہائی کے دوران غیرمعمولی طور پر بڑی تعداد میں مصنوعی سیارے بیرونی خلا میں بھیجے گئے۔ 2013 میں ان کی تعداد 210 تھی جو گزشتہ برس 2,470 تک پہنچ گئی اور ان میں بیشتر نجی کمپنیوں ںے بھیجے۔

اس عرصہ کے دوران خلا میں بھیجے جانے والے نجی جہازوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا اور 2021 میں بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر پہلا تجارتی مشن بھی بھیجا گیا۔

رپورٹ کے مطابق مواصلات، تدبیراتی سرگرمیوں، خلائی سیاحت اور سائنس کے لئے نجی خلائی پروازوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ اس شعبے میں امریکہ سب سے آگے ہے تاہم چین، انڈیا اور جاپان میں بھی نئی تجارتی خلائی کمپنیاں قائم ہو گئی ہیں۔

اگرچہ 1972 میں اپالو پروگرام کی آخری پرواز کے بعد انسان نے خلائے بسیط کا رخ نہیں کیا تاہم یہ رپورٹ خلائی کھوج کے ایک "نئے دور" کی نشاندہی کرتی ہے۔

مثال کے طور پر امریکہ کا خلائی ادارہ ناسا 2024 میں چاند کے گرد انسان بردار خلائی جہاز بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جبکہ امریکہ کی نجی خلائی کمپنی سپیس ایکس فنکاروں کے ایک گروہ کو دوبارہ قابل استعمال بنائے جانے والے نقل و حرکت کے نظام 'سٹار شپ' کے ذریعے دوردراز خلا میں بھیجنا چاہتی ہے۔

خلائی سرگرمیاں اور خدشات

اگرچہ یہ پیش ہائے رفت انسانیت کے لئے بے پایاں مواقع کھولنے کا امکان رکھتی ہیں تاہم رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اس میں کئی طرح کے خطرات بھی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق "خلا میں موجود چیزوں کی تعداد میں اضافہ اور بیرونی خلا میں بڑی تعداد میں بھیجے جانے والے مشن حادثات، ٹکراؤ اور خلائی ملبے سے متعلق خدشات کو بھی بڑھا رہے ہیں۔

یہ مسئلہ تیزی سے اہمیت اختیار کر لے گا کیونکہ خلائی سرگرمیاں انجام دینے والے ادارے خلا سے ملبہ ہٹانے، زمینی مدار میں خدمات مہیا کرنے، خلائی ٹیکنالوجی کی تیاری اور خلائی سیاحت سے متعلق نئے اور انوکھے اقدامات میں مصروف ہیں۔"

مشترکہ ذمہ داری

رپورٹ کے اختتامی حصے میں سیکرٹری جنرل نے ایس ڈی جی کے حصول کے لئے بیرونی خلا سے وابستہ امکانات سے کام لینے کے لئے سفارشات پیش کی ہیں۔

ان میں کہا گیا ہے کہ "یہ یقینی بنانا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ خلا سے متعلق موجودہ بین الاقوامی قانون پر پوری طرح عمل ہو اور اختراع کی رفتار بڑھانے اور خدشات میں کمی لانے کے لئے موثر انتظام ممکن بنایا جائے۔

بیرونی خلا کے پُرامن استعمال کے بارے میں اقوام متحدہ کی کمیٹی کو خلائی استحکام کے لئے ایک متفقہ معاہدہ طے کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔

خلائی ٹریفک

ایسا معاہدہ زمینی مدار میں اور اس سے پرے بشمول چاند اور نظام شمسی کے دیگر اجسام پر خلائی کارروائیوں میں شفافیت بڑھانے، اعتماد کے قیام اور باہم متعامل خلائی اقدامات میں مدد دے گا۔

اس کے متبادل کے طور پر کمیٹی خلائی استحکام سے متعلق متعدد شعبوں جیسا کہ خلائی ٹریفک کے انتظام، خلائی ملبے کو ہٹانے اور خلا سے متعلق تدبیراتی سرگرمیوں کے لئے نئے انتظامی فریم ورک تیار کرنے پر غور کر سکتی ہے۔

خلا برائے خواتین

پالیسی بریف میں اقوام متحدہ کے اداروں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ خلائی شعبے میں خواتین کی مساوی شرکت کو فروغ دینے کی کوششوں کو بڑھائیں جن میں ایسے پروگراموں سے بھی کام لیا جائے جو لڑکیوں میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (سٹیم) کی تعلیم کو ترویج دیں۔