انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سوڈان: یو این سنگین صورتحال میں بھی امدادی کام جاری رکھے ہوئے ہے

خرطوم میں میزائل لگنے کے بعد ایک تباہ حال عمارت۔
Mohammed Shamseddin
خرطوم میں میزائل لگنے کے بعد ایک تباہ حال عمارت۔

سوڈان: یو این سنگین صورتحال میں بھی امدادی کام جاری رکھے ہوئے ہے

انسانی امداد

سوڈان میں بڑھتی ہوئی ضروریات، اہم چیزوں کی قلت اور قیمتوں میں تیزتر اضافے کے ہوتے ہوئے اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے وعدہ کیا ہے کہ لوگوں کو اشد ضروری امداد کی فراہمی جاری رہے گی۔

متحارب عسکری دھڑوں کے مابین دس روزہ لڑائی نے ملکی آبادی پر تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں امدادی امور کے رابطہ دفتر (او سی ایچ اے) نے خبردار کیا ہے کہ لوگوں کے پاس خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن کی قلت ہے، بجلی کی فراہمی محدود ہے اور ضروری اشیا کے نرخ اور ذرائع نقل و حمل کے کرائے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔

Tweet URL

'او سی ایچ اے' کے ترجمان جینز لائرکے نے جینیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ سوڈان میں پہلے ہی شدید ضرورت مند لوگوں کی حالت اب اور بھی پتلی ہو رہی ہے۔ انہوں ںے واضح کیا کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں امدادی کارروائیاں بھی متاثر ہوئی ہیں اور امدادی سامان اور گوداموں کو لوٹے جانے کی مزید اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

امداد کی فراہمی 'جب اور جہاں ممکن ہو'

سوڈان میں اقوام متحدہ کے عملے کے سینکڑوں ارکان اور ان کے اہلخانہ کی سوموار کو دارالحکومت خرطوم سے منتقلی کے بعد اقوام متحدہ کی ایک ٹیم بدستور ملک میں رہ کر وہاں جاری امدادی کارروائیوں کی نگرانی کرے گی۔ لائرکے نے کہا ہے کہ بحیرہ قلزم کے ساحلی شہر پورٹ سوڈان میں ایک امدادی مرکز قائم کیا جا رہا ہے۔

جینز لائرکے کا کہنا تھا کہ ''ہم اور ہمارے شراکت دار جب اور جہاں ممکن ہو امداد پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے سوڈان کے لوگوں کی ''بہادرانہ'' کوششوں کا تذکرہ بھی کیا۔ انہوں ںے کہا کہ سول سوسائٹی کے نیٹ ورک اپنے علاقوں میں انتہائی فوری ضروریات کی تکمیل کے لئے کوشاں ہیں جس میں طبی امداد کی فراہمی، خوراک اور پانی کی تقسیم اور شہریوں کی مدد بھی شامل ہے۔''

جنگ شروع ہونے سے پہلے سوڈان میں قریباً 15.8 ملین لوگوں کو امداد کی ضرورت تھی جو کہ ملکی آبادی کا تقریباً ایک تہائی ہے۔

ہزاروں لوگ پناہ کی تلاش میں سوڈان سے ہمسایہ ملک چاڈ پہنچ رہے ہیں۔
© UNHCR/Aristophane Ngargoune
ہزاروں لوگ پناہ کی تلاش میں سوڈان سے ہمسایہ ملک چاڈ پہنچ رہے ہیں۔

اموات اور زخمیوں کی تعداد میں اضافہ

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے سوڈان کی قومی وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ 24 اپریل تک اس لڑائی میں 459 افراد ہلاک اور 4,000 سے زیادہ زخمی ہو چکے تھے۔

ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ خرطوم میں کم از کم ایک چوتھائی طبی مراکز کام نہیں کر رہے جبکہ بیشتر لڑائی اسی شہر میں ہو رہی ہے۔ 

طبی مراکز پر حملے

عالمی ادارہ صحت نے لڑائی شروع ہونے کے بعد طبی مراکز پر 14 حملوں کی تصدیق کی ہے جن میں 8 افراد ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ یہ حملے بند ہونے چاہئیں کیونکہ ان سے ضرورت مند لوگوں کو اہم نوعیت کی طبی خدمات تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے ڈینگی اور ملیریا کی وباؤں کے باعث بڑھتے ہوئے طبی خدشات اور پانی کے نظام کو پہنچنے والے نقصان کے سبب ہیضے کے ممکنہ خطرے کی نشاندہی بھی کی۔

سوموار کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے سلامتی کونسل میں واضح کیا کہ ادارہ ملک میں رہتے ہوئے امدادی کام جاری رکھے گا اور سوڈان کے لوگوں کے ساتھ کھڑا رہے گا جو سویلین حکومت اور نئے جمہوری مستقبل کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

نقل مکانی میں اضافہ

لڑائی کے باعث پہلے ہی ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں اور عالمی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے ترجمان پال ڈیلن نے کہا ہے کہ ادارے نے سوڈان کے ہمسایہ ممالک میں داخلے کے 16 مقامات پر نقل مکانی کی نگرانی کا اہتمام کیا ہے۔

اس سلسلے میں جمع ہونے والی معلومات کی بنیاد پر نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی عمر، صنف اور طبی ضروریات کے مطابق درجہ بندی کی جاتی ہے اور یہ معلومات تمام امدادی اداروں کو بھیجی جاتی ہیں۔

سرحد پار نقل و حرکت

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ اس خطے میں سرحد پار سب سے زیادہ نقل و حرکت سوڈان سے چاڈ کی جانب ہو رہی ہے اور جنوبی سوڈان سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اپنے ملک میں واپس آ رہے ہیں۔ یو این ایچ سی آر کو لوگوں کے سوڈان سے مصر پہنچنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں لیکن اس حوالے سے تاحال کوئی اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔

'یو این ایچ سی آر' کا کہنا ہے کہ وہ نئے مہاجرین کی ضروریات کا اندازہ لگانے اور انہیں پورا کرنے کے لئے خطے میں اپنے شراکت داروں اور دیگر حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔