انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سب کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر سرمایہ کاری بڑھائیں

قاہرہ میں ایک لڑکی اپنے گھر میں نلکے سے صاف پانی پی رہی ہے۔
© UNICEF/Shehzad Noorani
قاہرہ میں ایک لڑکی اپنے گھر میں نلکے سے صاف پانی پی رہی ہے۔

سب کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر سرمایہ کاری بڑھائیں

صحت

حکومتوں کو چاہیے کہ کہ وہ پینے کے صاف پانی کے نظام قائم کرنے پر مزید سرمایہ کاری کریں تاکہ ناصرف آبی ذرائع تک رسائی میں اضافہ یقینی بنایا جا سکے بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو محدود رکھنے میں بھی مدد ملے۔ یہ بات سوموار کو شائع ہونے والی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، اقوام متحدہ میں بچوں کے ادارے یونیسف اور ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہی گئی ہے۔

کرہ ارض پر ہر انسان کو پانی اور نکاسی آب کی سہولت فراہم کرنا اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) میں سے ایک ہے جن پر 2015 میں ادارے کے 193 رکن ممالک نے اتفاق کیا تھا۔

Tweet URL

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ گزشتہ دو دہائیوں میں دو ارب سے زیادہ لوگوں ںے صاف پانی تک رسائی حاصل کی ہے لیکن دنیا کی ایک چوتھائی آبادی تاحال اس سے محروم ہے۔

بنیادی انسانی حق

موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں خشک سالی اور سیلابوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے آبی تحفظ کو خطرات لاحق ہیں اور صاف پانی کی فراہمی میں خلل آ رہا ہے۔

شہروں کی جانب تیزرفتار نقل مکانی کے باعث بھی غیررسمی آبادیوں اور کچی بستیوں میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کو پانی فراہم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے شعبہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی و صحت کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ماریا نئیرا نے کہا ہے کہ ''پینے کے صاف پانی تک رسائی بڑھانے سے بہت سی زندگیوں کو تحفظ ملا ہے جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ لیکن موسمیاتی تبدیلی ان کامیابیوں کا اثر زائل کیے دیتی ہے۔''

ان کا کہنا ہے کہ ''ہمیں یہ یقینی بنانے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کرنا ہو گا کہ ہر فرد کی پاس پینے کے صاف پانی تک قابل بھروسہ رسائی ہو کیونکہ یہ کوئی تعیش نہیں بلکہ بنیادی انسانی حق ہے۔''

اہم سرمایہ کاری

اس رپورٹ میں پانی، صحت اور ترقی کے مابین تعلق کا جائزہ لیا گیا ہے۔

رپورٹ میں پانی کے مسئلے پر حکومتوں اور شراکت داروں کے لیے قابل عمل سفارشات پیش کی گئی ہیں جن کا مقصد صاف پانی کی فراہمی کے محفوظ نظام کے قیام کے لیے مالی وسائل میں اضافہ کرنا اور خدمات کی فراہمی کی منصوبہ بندی، ارتباط اور اس کی نگرانی کی اہلیت کو مضبوط بنانا ہے۔

اس رپورٹ میں ایسی مثالیں بھی شامل ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے دنیا بھر کے ممالک 2030 تک تمام لوگوں کے لیے پینے کے صاف پانی کی رسائی ممکن بنانے سے متعلق ایس ڈی جی ہدف کے حصول کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

ورلڈ بینک گروپ میں 'واٹر گلوبل پریکٹس' کے ڈائریکٹر سروج کمار جھا کا کہنا ہے کہ ''پانی اور نکاسی آب کے شعبے میں سرمایہ کاری صحت، معاشی ترقی اور ماحول کے لیے لازمی اہمیت رکھتی ہے۔ صحت مند بچے ہی صحت مند طور سے بالغ ہوتے ہیں جو معیشت اور معاشرے کی بہتر میں زیادہ موثر کردار ادا کرتے ہیں۔''

کانگو کے علاقے گوما میں ایک بچی پینے کا صاف پانی بھر رہی ہے۔
© UNICEF/Olivier Asselin
کانگو کے علاقے گوما میں ایک بچی پینے کا صاف پانی بھر رہی ہے۔

بچوں کا طبی تحفظ

شراکت داروں نے حکومتوں اور نجی شعبے سے کہا ہے کہ وہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے اپنے سیاسی عزم میں غیرمعمولی اضافہ کریں اور اس شعبے میں اپنی سرمایہ کاری کو چار گنا بڑھائیں۔

یونیسف میں پانی، نکاسی آب اور صحت و صفائی (واش) اور موسمیات، ماحولیات، توانائی اور آفات کے خطرے کو محدود رکھنے کے شعبے (سی ای ای ڈی) کے قائم مقام ڈائریکٹر ایڈن کرونن نے کہا ہے کہ ''کسی بچے کو گندا پانی پینے، جو کہ ان کی اموات کا بڑ سبب ہے، یا پانی بھرنے کے لیے خطرناک سفر اختیار کرنے اور اس طرح سکول جانے سے محروم رہنے پر مجبور نہیں ہونا چاہیے۔''

ان کا کہنا ہے کہ ''بچوں کی صحت، تعلیم اور کامیابی یقینی بنانے کے لیے پینے کا قابل رسائی اور محفوظ پانی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔''

حکومتی سطح پر درکار اقدامات

یہ رپورٹ حکمرانی، مالیات، صلاحیتوں کی ترقی، اعدادوشمار و معلومات اور اختراع پر مرتکز پائیدار بہتری کے لیے جامع سفارشات پیش کرتی ہے۔

ان میں قانون سازی اور خدمات کے معیارات سے متعلق ضابطوں اور ان کے یقینی نفاذ کی مدد سے ایک موثر انضباطی ماحول کے قیام جیسے اقدامات کے ذریعے موجودہ اداروں کو مضبوط بنانا بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تمام ذرائع سے حاصل ہونے والے مالی وسائل میں اضافہ ہونا چاہیے۔ پانی سے متعلق خدمات فراہم کرنے والے اداروں کی استعداد اور کارکردگی بہتر بنائی جانی چاہیے اور حکومتوں کو اس مقصد کے لیے انتظام، انضباط اور پالیسی کے حوالے سے ایک مستحکم اور شفاف ماحول مہیا کرنا چاہیے۔

اس مقصد کے لیے مددگار سرکاری پالیسی اور ضابطہ کاری کے ذریعے اختراع اور تجربے کی حوصلہ افزائی بھی کی جانی چاہیے۔