انسانی کہانیاں عالمی تناظر

عالمی عدالت انصاف: غزہ میں حماس کے خلاف جنگ خود حفاظتی عمل، اسرائیل

ہیگ میں عالمی عدالت انصاف غزہ میں نسل کشی کے الزامات پر مبنی جنوبی افریقہ بنام اسرائیل مقدمے کی سماعت جاری رکھے ہوئے ہے۔
ICJ-CIJ/ Frank van Beek
ہیگ میں عالمی عدالت انصاف غزہ میں نسل کشی کے الزامات پر مبنی جنوبی افریقہ بنام اسرائیل مقدمے کی سماعت جاری رکھے ہوئے ہے۔

عالمی عدالت انصاف: غزہ میں حماس کے خلاف جنگ خود حفاظتی عمل، اسرائیل

امن اور سلامتی

عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل نے جنوبی افریقہ کی جانب سے نسل پرستی کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ میں حماس کے خلاف اپنے دفاع کی جنگ لڑ رہا ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اسے غزہ کی جنگ میں گھسیٹا گیا۔ وہ نہ تو یہ جنگ چاہتا تھا اور نہ ہی اس نے یہ شروع کی ہے۔اس کی قانونی ٹیم نے عدالت کو بتایا کہ غزہ میں حماس کے جنگجوؤں سے اسرائیل کو لاحق خطرے کا قلع قمع کرنا اور علاقے میں تاحال یرغمال 136 افراد کی رہائی اس کے دو بڑے عسکری مقاصد ہیں۔ 

نسل کشی سے انکار

اسرائیل کے معاون نمائندے تل بیکر نے کہا کہ ان کے ملک کی جنگ فلسطین کے لوگوں کے خلاف نہیں۔ تمام جنگوں کی طرح غزہ میں بھی شہریوں کو تکالیف پہنچ رہی ہیں جو کہ المناک اور دل شکن صورت حال ہے۔

اس موقع پر انہوں نے 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں میں ہلاک ہونے والے ایک کسان خاندان کے سربراہ کا آخری پیغام بھی پڑھ کر سنایا۔ اس واقعے میں حماس کے جنگجوؤں نے مبینہ طور پر پورے خاندان کو تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا تھا۔ 

انہوں نے عدالت کو جنوبی افریقہ کی جانب سے کی گئی اس درخواست کی بھی مخالفت کی جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں اپنی عسکری کارروائیاں فوری طور پر معطل کرنے کا عبوری حکم جاری کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا اپنے شہریوں اور یرغمالیوں کے تحفظ اور حماس کے حملوں کے بعد نقل مکانی کرنے والے ایک لاکھ 10 ہزار افراد کی محفوظ واپسی کے لیے اسرائیل کو اس کی صلاحیت سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔

اسرائیل نے عدالت کے روبرو جو موقف اختیار کیا ہے اس میں جنگ کے حوالے سے خاص طور پر اپنے دفاع کے حق کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

اسرائیل کے وکیل میلکم شا کا کہنا تھا کہ جب کسی ملک پر حملہ ہوتا ہے تو اپنا اور اپنے شہریوں کا دفاع کرنا اس کا حق ہے۔ اس میں نسل کشی کا کوئی ارادہ شامل نہیں ہے۔

نسل کشی کا 'ہتھیار'

عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کی قانونی ٹیم نے جنوبی افریقہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ نسل کشی کی اصطلاح کو اس کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اصطلاح حماس کے اقدامات پر صادق آتی ہے جو فلسطین کو یہودیوں سے پاک کرنے کی بات کرتی ہے۔ 

اسرائیل کے وکیل گیلٹ راگوآن نے کہا کہ اس مسلح گروہ نے اربوں ڈالر کی امداد کے ذریعے غزہ کو دہشت گردوں کا جدید ترین گڑھ بنانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ شہری علاقوں میں ہونے والی ایسی جنگوں کا ہمیشہ نتیجہ شہریوں کی المناک اموات، نقصان اور تباہی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ غزہ میں یہ سب کچھ اسی لیے دیکھنے کو ملا کہ حماس یہی کچھ چاہتی تھی۔ 

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ غزہ میں جس ہسپتال کی بھی تلاشی لی گئی اس میں حماس کی عسکری موجودگی کا ثبوت ملا جبکہ ایک ہسپتال کے انکیوبیٹر میں بھی اسلحہ چھپایا گیا تھا۔ 

اسرائیل کے وکلا نے اصرار کیا کہ ان کے ملک نے نسل کشی کے کسی ارادے کے بجائے صرف عسکری اہداف کو ہی نشانہ بنایا اور اس ضمن میں بین الاقوامی انسانی قانون کو مدنظر رکھا ہے۔ تاہم عسکری کارروائیوں کے دوران شہریوں کو نقصان سے بچانے اور انہیں امداد کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے اسرائیل کی کوششوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

جنگ بندی کے مطالبے کا اعادہ

جمعے کو اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے غزہ میں تشدد کے فوری خاتمے کے مطالبے کا اعادہ کیا۔ادارے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ علاقے میں لوگوں کی ہولناک تکالیف اور انسانی زندگی کے نقصان کو روکنے اور بھوک اور بیماریوں کا شکار آبادی کو امداد پہنچانے کے لیے جنگ بندی ضروری ہے۔

غزہ کی جنگ میں گھروں، ہسپتالوں، سکولوں، تنوروں، عبادت گاہوں، پانی کے نظام اور اقوام متحدہ کے مراکز کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ ادارے نے علاقے میں موجودہ حالات کو انتہائی غیرمستحکم قرار دیا ہے جہاں 13 لاکھ بے گھر لوگ مصر کی سرحد کے قریب واقع رفح شہر میں جمع ہیں۔

غزہ میں گزشتہ 14 روز کے دوران اسرائیل کی جانب سے بڑے پیمانے پر اور تباہ کن عسکری کارروائی کے نتیجے میں 23 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں دو تہائی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس دوران مسلح فلسطینی گروہ بھی اسرائیل پر اندھا دھند راکٹ برسا رہے ہیں۔