انسانی کہانیاں عالمی تناظر

دنیا میں ہر دسواں فرد بھوک کا شکار، یو این رپورٹ

جنوبی سوڈان سمیت دنیا بھر میں خشک سالی اور سیلابوں جیسے موسمی مسائل سے فصلیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
© WFP/Gabriela Vivacqua
جنوبی سوڈان سمیت دنیا بھر میں خشک سالی اور سیلابوں جیسے موسمی مسائل سے فصلیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

دنیا میں ہر دسواں فرد بھوک کا شکار، یو این رپورٹ

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے پانچ اداروں کی جانب سے جاری کردہ ایک جائزے کے مطابق کووڈ۔19، متواتر موسمی آفات اور مسلح تنازعات بشمول یوکرین کی جنگ کے باعث گزشتہ سال دنیا بھر میں 78 کروڑ 30 لاکھ لوگوں کو بھوک کا سامنا تھا۔

دنیا میں غذائی تحفظ اور غذائیت کی صورتحال پر مبنی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2022 میں 69  کروڑ  10 لاکھ تا 78 کروڑ 30 لاکھ لوگ بھوک کا شکار تھے۔

Tweet URL

اوسطاً یہ تعداد 73 کروڑ 50 لاکھ ہے جو 2019 کے مقابلے میں 12 کروڑ 20 لاکھ زیادہ ہے۔

یہ صورتحال بھوک کے خاتمے سے متعلق پائیدار ترقی کے ہدف کو لاحق ممکنہ خطرات کے بارے میں سنگین انتباہ کو بھی تقویت دیتی ہے۔ 

رپورٹ کے اجرا پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف کو دسترس میں رکھنے کے لیے مجموعی طور پر کڑی اور فوری عالمگیر کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں مسلح تنازعات سے لے کر موسمیاتی تبدیلی تک بہت سے ایسے بحرانوں اور دھچکوں کے خلاف خود کو مستحکم بنانا ہے جو غذائی عدم تحفظ کا باعث بنتے ہیں۔

زیادہ متاثرہ خطے

اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہےکہ مغربی ایشیا، غرب الہند اور افریقہ بھر میں بھوک بڑھ گئی ہے جہاں ہر پانچ میں سے ایک فرد کو بھوک کا سامنا ہے۔ یہ دنیا بھر میں بھوک کا سامنا کرنے والے لوگوں کی اوسط تعداد سے دو گنا زیادہ ہے۔ 

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او)، بین الاقوامی فنڈ برائے زرعی ترقی (آئی ایف اے ڈی)، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف)، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کی جانب سے مشترکہ طور پر جاری کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی بھوک کے علاوہ دنیا بھر میں صحت بخش غذا تک رسائی کے حوالے سے لوگوں کی صلاحیت بھی کم ہو ئی ہے۔ 2021 میں دنیا کے 3.1 ارب سے زیادہ لوگ صحت بخش خوراک کے حصول کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ 

بچوں میں غذائی قلت 

رپورٹ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے 14 کروڑ 80 لاکھ بچوں کو بڑھوتری میں مسائل کا سامنا تھا (یہ حالت غذائیت کی کمی سے ہوتی ہے جس میں بچے کا قد اور جسم عمر کے مطابق نہیں بڑھتا)، 4 کروڑ 50 لاکھ کم وزنی اور 3 کروڑ 70 لاکھ موٹاپے کا شکار تھے جسے عام طور پر ناقص غذائیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل کا کہنا ہے کہ غذائی قلت بچوں کی بقا، نمو اور ترقی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ 

رپورٹ کے مطابق شہری اور دیہی علاقوں کے بچوں میں غذائی قلت کی شرح میں بھی فرق ہوتا ہے۔ دیہات میں رہنے والے بچوں میں بڑھوتری کے مسائل 35.8 فیصد اور شہروں میں 22.4 فیصد ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

اسی طرح دیہی علاقوں میں کم وزنی 10.5 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ شہروں میں یہ شرح 7.7 فیصد تھی۔ شہری علاقوں کے بچوں میں موٹاپے کی کیفیت 5.4 فیصد اور دیہات میں 3.5 فیصد پائی گئی ہے۔ 

کیتھرین رسل کا کہنا ہے کہ غذائی بحران کا حجم بچوں کے حوالے سے مضبوط تر اقدامات کا تقاضا کرتا ہے جن میں قوت بخش و سستی غذاؤں اور غذائیت کے حوالے سے ضروری خدمات تک رسائی کو ترجیح دینا، بچوں اور نوعمر افراد کو کم غذائیت والی اور تبدیل شدہ خوراک سے تحفظ فراہم کرنا اور بچوں کے لیے بھرپور غذائیت پر مبنی اور علاج میں مددگار غذا سمیت خوراک اور غذائیت سے متعلقہ اشیا کی تجارتی ترسیل کے نظام کو مضبوط بنانا بھی شامل ہے۔