انسانی کہانیاں عالمی تناظر

تصادموں میں پھنسے بچوں کے لیے ہولناک سال

یوکرین میں بمباری سے تباہ ہونے والا ایک سکول۔
© UNICEF/Diego Ibarra Sánchez
یوکرین میں بمباری سے تباہ ہونے والا ایک سکول۔

تصادموں میں پھنسے بچوں کے لیے ہولناک سال

امن اور سلامتی

بچوں اور مسلح تنازعات سے متعلق بین الاقوامی قانون کی پامالیوں کے تباہ کن اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ یہ بات اس موضوع پر اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عہدیدار نے بتائی ہے جن کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سکولوں اور ہسپتالوں پر حملوں کی تعداد 112 گنا بڑھ گئی ہے۔

بچوں اور مسلح تنازعات کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ورجینیا گامبا نے اس موضوع پر 2022 کی صورتحال سے متعلق سیکرٹری جنرل کی تازہ ترین سالانہ رپورٹ پیش کی ہے جس کے مطابق گزشتہ برس بچوں کے حقوق کی سنگین پامالی کے مجموعی طور پر 27,180 واقعات سامنے آئے جو کہ اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔

حقوق کی پامالیوں کی یہ تفصیل صرف مصدقہ معلومات کی بنیاد پر ترتیب دی گئی ہے جبکہ ایسے واقعات کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ رپورٹ میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کا چار درجوں میں جائزہ لیا گیا ہے جن میں ان کی فوجی مقاصد کے لئے بھرتی اور ان سے مسلح گروہوں یا فورسز میں کام لینا، بچوں کی ہلاکت اور معذوری، ان کے ساتھ جنسی زیادتی و تشدد اور بچوں کا اغوا شامل ہیں۔ 

حقوق کی پامالیوں کا سامنا کرنے والے دو تہائی بچوں میں لڑکے شامل ہیں جنہیں 24 مختلف مسلح تنازعات میں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران 8,831 بچے ہلاک و معذور ہوئے اور 7,622 ایسے تھے جنہیں مسلح گروہوں یا فورسز میں بھرتی کیا گیا۔ 

بدترین قانون شکن  

گامبا نے نیویارک میں پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ جن ممالک میں حقوق کی پامالیوں کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے ان میں جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی)، اسرائیل، فلسطینی ریاست، صومالیہ، شام، یوکرین، افغانستان اور یمن شامل ہیں۔ 

رپورٹ کے مطابق حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نگرانی و تصدیق انتہائی مشکل رہی۔ اس کی وجوہات میں رسائی کے حوالے سے رکاوٹیں، جن کے باعث ایسے واقعات سامنے نہیں آ پاتے اور 2022 میں ایسے مصدقہ واقعات کی تعداد میں اضافہ بھی شامل ہے۔ 

جن ممالک میں بچوں کے حقوق کی پامالی عروج پر رہی ان میں میانمار، جنوبی سوڈان اور برکینا فاسو نمایاں ہیں۔ 

سکولوں اور ہسپتالوں پر حملے 

رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال سکولوں پر 1,163 اور ہسپتالوں پر 647 حملے ریکارڈ کئے گئے جو 2021 کے مقابلے میں 112 گنا زیادہ بڑی تعداد ہے۔ 

مسلح فورسز اور گروہوں کی جانب سے سکولوں کا فوجی مقاصد کے لئے عام استعمال انتہائی تشویش ناک رحجان ہے۔ ورجینیا گامبا نے انہیں "پُرامن مقامات" کے طور پر برقرار رکھنے کے لئے کہا۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ اس عرصہ میں 2,500 بچوں کو حراست میں لیا گیا اور یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے آخری چارے کے طور پر اور مختصر ترین وقت کے لئے ہی کام لینا چاہیے۔

خانہ جنگی کے شکار سوڈان کے دارالحکومت خطرطوم میں مائیگوما یتیم خانے کے بچوں کا طبی معائنہ کیا جا رہا ہے۔
© UNICEF/UN0854045/
خانہ جنگی کے شکار سوڈان کے دارالحکومت خطرطوم میں مائیگوما یتیم خانے کے بچوں کا طبی معائنہ کیا جا رہا ہے۔

قانون شکنوں میں روس کا اضافہ

ورجینیا گامبا نے کہا کہ یوکرین میں روس کی افواج اور اس سے منسلک مسلح گروہوں کو اس رپورٹ کے ملحقہ حصے میں نمایاں قانون شکن عناصر کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ یہ شمولیت یوکرین پر حملے کے دوران وہاں ہسپتالوں اور سکولوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات کی تعداد اور فوجی کارروائیوں میں بچوں کی ہلاکتوں کی بنیاد پر عمل میں آئی ہے۔ 

روس کی جانب سے گنجان علاقوں کو راکٹ نظام سے نشانہ بنائے جانے، ان پر فضائی حملوں اور بمباری کا نتیجہ بڑے پیمانے پر انسانی نقصان کی صورت میں نکلا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے حملے روکنے کے اقدامات متعارف کرانے کے لئے ماسکو کے ساتھ ان کے روابط جاری رہیں گے۔ 

انہوں ںے کہا کہ اس رپورٹ میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے یوکرین کی مسلح افواج کو بھی دوران جنگ سکولوں اور ہسپتالوں پر حملوں کے ارتکاب پر متنبہ کیا گیا ہے۔ 

رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ دفاعی اقدامات کے دوران بھی بین الاقوامی انسانی حقوق کی پاسداری کرنا ضروری ہے۔ ورجینیا گامبا نے یوکرین کی حکومت کی جانب سے اس ضمن میں لائی جانے والی بہتری کو سراہا۔ 

'اسرائیل اور فلسطین شامل نہیں'

خصوصی نمائندہ نے کہا کہ بچوں کے حقوق کی پامالیوں میں ملوث ممالک کی فہرست میں اسرائیل اور فلسطینی ریاست کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ مئی 2021 میں غزہ کے شہریوں پر حملوں جیسے واقعات کو نہ دہرانے اور انتقامی میزائل حملوں سے باز رہنے کے لئے دونوں کو کئے جانے والے انتباہ کا مثبت جواب آیا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ 2022 میں اسرائیل کی جانب سے فضائی حملوں میں اہم کمی واقع ہوئی اور یہ رپورٹ شائع کرنے اور تشدد کو سامنے لانے کا مجموعی مقصد ممالک کے طرزعمل میں تبدیلی لانا اور بچوں کے تحفظ کی صورتحال کو مضبوط کرنا ہے۔ 

تاہم، انہوں نے اس برس مغربی کنارے اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں بڑھتے ہوئے تشدد پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ 

قانون شکن قرار دیے جانے والے دیگر عناصر میں جمہوریہ کانگو کے مسلح گروہ بشمول ایم23، مائی مائی زائرے اور کوڈیکو بھی شامل ہیں۔ برکینا فاسو سے تعلق رکھنے والے دو غیرریاستی کرداروں کو بھی اس فہرست کا حصہ بنایا گیا ہے۔ 

ورجینیا گامبا نے سکولوں اور ہسپتالوں پر حملوں کی پاداش میں میانمار کے فوجی حکمرانوں کی اس فہرست میں شمولیت کا تذکرہ بھی کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان حکمرانوں نے پانچ واقعات میں بچوں کے حقوق کو پامال کیا۔ 

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہیٹی اور نائیجر کی صورتحال ان کے دفتر کے لئے بڑھتی ہوئی تشویش کا باعث ہے۔