انسانی کہانیاں عالمی تناظر

انخلاء کے اسرائیلی حکم پر دربدر فلسطینیوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں

خان یونس سے انخلاء کے اسرائیلی حکم کے بعد فلسطینی لوگ ایک بار پھر محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
UNRWA
خان یونس سے انخلاء کے اسرائیلی حکم کے بعد فلسطینی لوگ ایک بار پھر محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

انخلاء کے اسرائیلی حکم پر دربدر فلسطینیوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے بتایا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کے حکم پر انخلا کرنے والے ہزاروں لوگوں کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں جبکہ علاقے میں بمباری جاری ہے اور ملبے کے ڈھیروں پر مقیم لوگوں کو غیرانسانی حالات کا سامنا ہے۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کے سکولوں اور سرکاری عمارتوں میں لاکھوں لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ مزید گنجائش نہ ہونے کے باعث نئے آنے والے ہزاروں پناہ گزین واپس جا رہے ہیں۔

Tweet URL

'انرا' نے بتایا ہےکہ غزہ میں رہن سہن کے حالات ناقابل برداشت ہیں۔ پناہ گاہوں کے ساتھ اور سڑکوں کے کنارے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہیں جن سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔ گزشتہ ہفتے مشرقی غزہ کے علاقے شجاعیہ سے 85 ہزار لوگوں نے انخلا کیا۔ اسی طرح جنوبی علاقے خان یونس اور رفح سے مزید 67,700 افراد نے نقل مکانی کی ہے۔

اسہال اور ہیپاٹائٹس کا پھیلاؤ

غزہ میں اقوام متحدہ کے بیشتر مراکز پناہ گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ کئی مرتبہ نقل مکانی کرنے والے لاکھوں افراد ان مراکز اور تباہ شدہ عمارتوں کے ڈھانچوں میں مقیم ہیں۔ صفائی اور نکاسی آب کا انتظام نہ ہونے کے باعث متعدی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور بچوں کو اسہال اور ہیپاٹائٹس لاحق ہونے کا خطرہ ہے۔

'انرا' نے بتایا ہے کہ خان یونس میں نئی عسکری کارروائی کے نتیجے میں صاف پانی تک لوگوں کی رسائی مزید متاثر ہونے کا خدشہ ہے جبکہ نکاسی آب کے بغیر بیماریوں کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے۔

بچوں کے لیے سنگین خطرہ

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ غزہ کے لوگوں کی زندگی کو رات کے وقت اسرائیل کی بمباری کے علاوہ اَن پھٹے گولہ بارود سے بھی سنگین خطرات لاحق ہیں۔ 29 جون کو خان یونس میں ایسے ہی ایک بم دھماکے میں نو سالہ بچی ہلاک اور تین دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ نقل مکانی کے دوران راستوں میں پڑا اَن پھٹا گولہ بارود لوگوں کی جان کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔

قبل ازیں اقوام متحدہ کی مائن ایکشن سروس نے بتایا تھا کہ غزہ پر برسایا جانے والا 10 فیصد گولہ بارود پھٹ نہیں سکا جو تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے پر اور راستوں میں پڑا ہے۔ دن بھر پانی اور خوراک کی تلاش میں نکلے کمسن بچوں کے اس گولہ بارود کی زد میں آنے کا خطرہ کہیں زیادہ ہے جو عام طور پر بھاری وزن اٹھا کر طویل فاصلوں تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔

امداد کی رسائی میں مشکلات

مشکل حالات کے باوجود 'انرا' غزہ کے تباہ حال لوگوں کو پانی، خوراک اور دیگر مدد مہیا کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہا ہے۔ تاہم ضروریات بہت زیادہ ہیں جبکہ غزہ میں پہنچنے والی امداد انہیں پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ 

ادارے کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے محاصرے، ایندھن اور امدادی سامان کی قلت، تحفظ کی عدم موجودگی، نظم و نسق کے خاتمے اور بڑھتی ہوئی لاقانونیت نے اس کے کام کو مشکل بنا دیا ہے۔

غزہ کے طبی حکام کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد علاقے میں 38 ہزار افراد ہلاک اور 87 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

مغربی کنارے میں فضائی حملے

'اوچا' کے مطابق، 7 اکتوبر کے بعد مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے فضائی حملوں کے 28 واقعات پیش آ چکے ہیں۔ ایسے دو حملے گزشتہ ہفتے کیے گئے تھے۔ ان میں اب تک 14 بچوں سمیت 77 فلسطینیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔

ادارے کا کہنا ہےکہ اسرائیلی فوج کی جانب سے تلکرم کے علاقے میں واقع نور شمس پناہ گزین کیمپ میں کی گئی حالیہ کارروائی میں 200 گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔