انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ: خوراک کی شدید قلت، لوگ درختوں کے پتے کھانے پر مجبور

غزہ میں دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کے پاس رہنے کو کوئی جگہ نہیں ہے۔
© UNRWA
غزہ میں دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کے پاس رہنے کو کوئی جگہ نہیں ہے۔

غزہ: خوراک کی شدید قلت، لوگ درختوں کے پتے کھانے پر مجبور

امن اور سلامتی

شمالی غزہ میں جاری شدید لڑائی کے باعث چند روز میں 84 ہزار لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے بتایا ہے کہ خوراک کی شدید قلت قحط میں تبدیل ہو رہی ہے اور لوگ درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں نقل مکانی کرنے والے بیشتر لوگوں نے غزہ شہر کے مشرقی علاقے شجاعیہ سے انخلا کیا ہے۔ شاہراہ صلاح الدین سے مشرق سے 100 میٹر کے فاصلے پر اسرائیلی فوج کی عسکری کارروائی کے باعث امدادی گودام تک رسائی ختم ہو گئی ہے۔

Tweet URL

ادارے نے مقامی لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ علاقے میں خوراک کی شدید قلت ہے۔ لوگ فاقوں پر مجبور ہیں اور فوری امداد نہ پہنچی تو قحط کو پھیلنے سے روکا نہیں جا سکے گا۔

غزہ شہر میں بربادی

'انرا' کی ترجمان لوسی ویٹریج نے کہا ہے کہ غزہ شہر میں سات مربع کلومیٹر علاقہ تاراج ہو چکا ہے۔ لوگوں کے گھر جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں اور انہیں ضرورت کی چند چیزیں لے کر نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ بہت سے لوگوں کے عزیز رشتہ دار بمباری میں ہلاک ہو گئے ہیں۔

حاملہ خواتین اور معذور افراد کی حالت خاص طور پر تشویشناک ہے۔ ان لوگوں کے لیے باآسانی نقل مکانی ممکن نہیں جبکہ ہزاروں بے سہارا اور والدین سے بچھڑ جانے والے بچوں کے حوالے سے بھی شدید خدشات پائے جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا ہے کہ جنگ کے باعث غزہ شہر کے علاقے طُفہ میں مرکزی امدادی گودام تک رسائی ختم ہو گئی ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران بے گھر ہونے والے لوگوں میں سے 10,600 نے 'انرا' کے سکولوں سمیت 27 جگہوں پر پناہ لے رکھی ہے جہاں عارضی طبی مراکز پر شدید دباؤ ہے۔

جنوبی غزہ سے نقل مکانی

'انرا' نے لاکھوں پناہ گزینوں کو پانی، خوراک کے پیکٹ اور آٹا فراہم کیا ہے جبکہ بچوں کی نیپیاں، گدے اور ترپالیں تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے۔ اتوار کو علاقے میں ایندھن کی کچھ مقدار پہنچی ہے جس میں ڈیزل بھی شامل ہے جسے ہسپتالوں کے جنریٹر اور پانی صاف کرنے کے پلانٹ چلانے کے لیے استعمال کیا جائے گا لیکن ضروریات کے مقابلے میں یہ ایندھن نہ ہونے کے برابر ہے۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے مطابق امداد کی رسائی میں رکاوٹیں برقرار ہیں۔ اسرائیل کے حکام نے 100 طے شدہ امدادی کارروائیوں میں نصف سے کم کی منظوری ہی دی ہے۔بقیہ کارروائیاں یا تو رکاوٹوں کے سبب انجام نہ پا سکیں یا انہیں مخصوص علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں ملی اور بعض مشن انصرامی و حفاظتی خدشات کی بنا پر منسوخ کر دیے گئے۔

'اوچا' کے مطابق جنوبی غزہ کے ساحلی علاقے المواصی میں اسرائیل کی عسکری کارروائی کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی نقصان ہوا ہے۔ شراکتی امدادی اداروں کے مطابق اس کارروائی کے نتیجے میں کم از کم پانچ ہزار لوگوں نے علاقے سے نقل مکانی کی ہے۔

تباہی کے مناظر

لوسی ویٹریج نے بتایا ہے کہ رفح میں گزشتہ مہینے کے آغاز میں شروع ہونے والی عسکری کارروائی کے بعد اب یہ علاقہ شمالی غزہ کی طرح کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔

دوران جنگ 'انرا' نے لوگوں کو خوراک، طبی امداد اور پناہ گزینوں کے کیمپوں میں بچوں کو تعلیم بھی مہیا کی ہے، تاہم غزہ کے متواتر محاصرے کے باعث اب ادارے کے لیے پہلے کی طرح لوگوں کو مدد کی فراہمی تقریباً ناممکن ہو گئی ہے۔

لوسی ویٹریج کا کہنا ہےکہ ادارے کا عملہ بھی نو مہینے سے کڑی مشکلات جھیلتے ہوئے اپنی بقا کی جدوجہد کر رہا ہے جبکہ تحفظ کی غیرموجودگی میں اس کے لیے امدادی کام جاری رکھنا آسان نہیں رہا۔