انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ: اسرائیلی حملوں میں جنگی اصولوں کی بارہا خلاف ورزی کا امکان

آٹھ ماہ سے جاری اسرائیلی بمباری کی وجہ سے غزہ کے علاقے خان یونس کے کئی علاقے اب پہنچانے نہیں جاتے۔
© UNICEF/Tess Ingram
آٹھ ماہ سے جاری اسرائیلی بمباری کی وجہ سے غزہ کے علاقے خان یونس کے کئی علاقے اب پہنچانے نہیں جاتے۔

غزہ: اسرائیلی حملوں میں جنگی اصولوں کی بارہا خلاف ورزی کا امکان

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی بمباری میں جنگی قوانین کو تواتر سے پامال کیا گیا، علاقے میں انتہائی طاقتور بم برسائے گئے اور حملوں میں جنگجوؤں اور شہریوں کے مابین کوئی تمیز روا نہیں رکھی گئی۔

'او ایچ سی ایچ آر' نے غزہ پر اسرائیلی حملوں اور ان سے ہونے والے نقصان کی تحقیقات کے بعد کہا ہے کہ اسرائیل نے شہریوں کو نقصان سے بچانے یا ان کا نقصان کم سے کم رکھنے کے طریقے اختیار کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔

Tweet URL

ادارے نے اپنی رپورٹ میں غزہ پر کیے گئے چھ حملوں کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں رہائشی عمارتوں، سکولوں، پناہ گزینوں کے کیمپوں اور بازاروں کو 920 کلوگرام تک وزنی بموں سے نشانہ بنایا گیا۔ 9 اکتوبر سے 2 دسمبر تک کیے گئے ان حملوں میں 12 فٹ (3.4) میٹر تک طویل بموں اور ان کی چھوٹی اقسام کا استعمال ہوا جس کے نتیجے میں 218 ہلاکتیں ہوئیں جبکہ ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ 

اگرچہ یہ رپورٹ اسرائیلی حملوں کی نوعیت کے بارے میں ہے تاہم اس میں فلسطینی مسلح گروہوں کی جانب سے اسرائیل پر اندھا دھند راکٹ برسائے جانے کا تذکرہ بھی شامل ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے حملے بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت متحارب فریق کی ذمہ داریوں سے متضاد ہیں۔

گنجان آبادیوں پر مہلک حملے

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ 11 نومبر 2023 کو اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس کی فضائیہ نے 5,000 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ اس وقت تک غزہ کے طبی حکام نے 11,078 فلسطینیوں کی ہلاکتوں، 2,700 کے لاپتہ اور 27,490 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔

اسرائیل نے گنجان آباد علاقوں پر دھماکہ خیز اسلحے سے حملے کیے اور اس دوران ایسے طریقے اختیار نہیں کیے گئے جن کے ذریعے شہریوں کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ بین الاقوامی انسانی قانون (آئی ایچ ایل) کے تحت شہریوں اور شہری تنصیبات کو جنگی کارروائیوں سے تحفظ حاصل ہے۔ اس قانون میں متحارب فریقین سے کہا گیا ہے کہ وہ شہریوں کے تحفظ کو اپنی ترجیح بنائیں۔

رپورٹ کے مصنفین نے غزہ شہر کے علاقے آش شجاع پر حملوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان میں 130 مربع میٹر کے علاقے میں 15 عمارتیں تباہ ہوئیں اور اس دوران کم از کم 60 افراد ہلاک ہو گئے۔

اسرائیلی پالیسی برقرار

'او ایچ سی ایچ آر' کی ترجمان روینہ شمداسانی نے خبردار کیا ہے کہ بظاہر اسرائیلی فوج کے کمانڈروں نے غزہ پر حملوں کے حوالے سے اپنی جنگی چالوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور جنگی قوانین کے تحت شہریوں کو حملوں سے بچانے کی کوئی کوشش دکھائی نہیں دیتی۔ 

ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج اب بھی ایسے ہی حملے کر رہی ہے اور ان میں وہی ہتھیار اسی انداز میں استعمال کیے جا رہے ہیں جن کا اس سے پہلے مشاہدہ ہوتا رہا ہے۔ ان حالات میں بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری کے حوالے سے نہایت سنگین خدشات جنم لیتے ہیں۔ 

انہوں نے اس جنگ کے ابتدائی ایام میں اسرائیلی فوج کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے اس بیان کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 'آپ کو جہنم چاہیے، آپ کو جہنم ہی ملے گی'۔

غزہ کے جنوبی علاقے رفح پر اسرائیلی بمباری جاری ہے۔
© UNICEF/Eyad El Baba

جنگ کی آواز

مقبوضہ فلسطینی علاقے میں 'او ایچ سی ایچ آر' کے سربراہ اجیت سنگھے نے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو ناقابل تصور تباہی کا سامنا ہے۔ ہسپتال زخمیوں اور مریضوں سے اٹے ہیں، علاقے بھر میں ناقابل برداشت بدبو پھیلی ہے، پناہ گزینوں کے خیمے بھی گندے پانی سے محفوظ نہیں اور علاقے میں پینے کا صاف پانی ندارد ہے۔

اسرائیلی بمباری اور زمینی حملوں کے بعد خان یونس کا منظرنامہ تبدیل ہو گیا ہے۔ علاقے میں مکمل اور جزوی طور پر تباہ شدہ عمارتیں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ بعض لوگوں نے انہیں بتایا کہ وہ 10 مرتبہ نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ 

خان یونس، رفح اور دیرالبلح کا دورہ کرنے کے بعد عمان سے ویڈیو لنک کے ذریعے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ہے کہ علاقے میں بیشتر لوگوں کو اسرائیلی فوج کے حکم پر کئی مرتبہ نقل مکانی کرنا پڑی ہے اور اب وہ بمشکل زندہ ہیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ بمباری میں بچ گئے ہیں ان کے بیماریوں سے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔ علاقے میں متواتر بموں، فائرنگ اور ڈرون طیاروں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ جنگ کی آواز بلاتوقف دن رات آ رہی ہے۔

اجیت سنگھے کے مطابق، اقوام متحدہ کے ساتھ اپنے 22 سالہ تجربے اور بہت سی جنگوں اور ان کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں کام کرتے ہوئے انہوں نے کبھی اس قدر مسائل نہیں دیکھے جن کا اس وقت اقوام متحدہ اور اس کے امدادی شراکت داروں کو سامنا ہے۔

بچے وسطی غزہ میں ملبے کا ڈھیر بن جانے والے اپنے گھروں کے پاس کھڑے ہیں۔
© UNRWA

تحقیقات کا مطالبہ

روینہ شمداسانی نے اس رپورٹ میں بیان کردہ واقعات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات پر زور دیا ہے تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ آیا یہ جنگی جرائم کے مترادف ہو سکتے ہیں اور ان کے ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جا سکے۔

روینہ شمداسانی نے کہا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ایسی تحقیقات کرنا مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ادارے نے اسرائیلی حکام سے کہا ہے کہ وہ یہ یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھائیں کہ ان حملوں کی مناسب اور شفاف تحقیقات ہوں۔ اگر ایسا نہ ہوا اور جنگی قوانین کو بلاخوف و خطر پامال کیا جاتا رہا تو اس حوالے سے بین الاقوامی اقدام کی ضرورت بھی ہو گی۔