انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ: جنگ اور خطرات کے باعث امدادی ادارے خوراک تقسیم کرنے میں ناکام

غزہ کے علاقے المواصی میں بچے کھلے آسمان تلے سو رہے ہیں۔
© UNICEF/Media Clinic
غزہ کے علاقے المواصی میں بچے کھلے آسمان تلے سو رہے ہیں۔

غزہ: جنگ اور خطرات کے باعث امدادی ادارے خوراک تقسیم کرنے میں ناکام

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں غذائی قلت تیزی سے شدت اختیار کر رہی ہے جبکہ علاقے میں امداد کی ترسیل کے بڑے سرحدی راستے بند ہیں یا ان تک رسائی خطرے سے خالی نہیں۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) نے تصدیق کی ہے کہ امداد کی قلت کے باعث خوراک کی تقسیم معطل کر دی گئی ہے۔ غزہ بھر میں جاری لڑائی کے باعث امدادی ٹیموں کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے رفح کی شہری آبادی کو انخلا کے احکامات دیے جانے کے بعد اس علاقے اور گردونواح میں صورتحال کہیں زیادہ مخدوش ہو گئی ہے۔

Tweet URL

آج آئرلینڈ، سپین اور ناروے نے مشترکہ طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطین کو ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آئرلینڈ کی حکومت نے اس حوالے سے جاری کردہ بیان میں بتایا ہے کہ اس نے یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ہم خیال ممالک کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے اور وہ 28 مئی کو اس پر باقاعدہ طور سے عملدرآمد کرے گی۔ 

امدادی گودام خالی

'انرا' کی ترجمان لوسی ویٹریج نے کہا ہے کہ رفح میں جاری عسکری کارروائیوں کے باعث ادارے کو خوراک کی تقسیم کے مراکز تک رسائی نہیں رہی۔ بہت سے لوگ امداد اور خدمات کی فراہمی کے لیے تیار ہیں لیکن سرحد پار رسائی نہ ہونے کے باعث انسانی امداد غزہ میں نہیں آ رہی اور ادارے کے گودام خالی پڑے ہیں۔ 

مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار ٹور وینزلینڈ نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ رفح میں بڑے پیمانے پر ممکنہ عسکری کارروائی تشویش کا باعث ہے۔ اس سے علاقے میں انسانی امداد کی فراہمی اور اسے لوگوں میں تقسیم کرنے کی کوششوں کو مزید نقصان ہو گا۔

شمالی غزہ میں مغربی ایریز/ زکم کی سرحدی گزرگاہ کھولے جانے کا خیرمقدم کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ بہت بڑے پیمانے پر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑی مقدار میں امداد کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے موجودہ سرحدی گزرگاہوں کا کوئی متبادل نہیں۔ 

رابطہ کار نے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے لیے سیکرٹری جنرل کی پکار کو دہراتے ہوئے کہا کہ رفح میں زندگیوں کو تحفظ دینا اور لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا فوری ترجیح ہونی چاہیے۔اگر فلسطین اور اسرائیل کا تنازع حل نہیں ہوتا تو اس جنگ کے خطے بھر میں پھیلاؤ کا خطرہ ہے۔ 

تندور بند ہونے کا خدشہ

'اوچا' نے بتایا ہے کہ 18 مئی تک غزہ میں اس کے شراکت دار اداروں کی مدد سے چلنے والے 16 تنوروں میں صرف 10 ہی کام کر رہے تھے۔ اگر انہیں اناج اور آٹا مہیا نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ چند روز میں باقی ماندہ تندور بھی بند ہو جائیں گے۔ رفح میں چھ تنور ایندھن کی قلت یا علاقے میں عسکری کارروائیوں کے باعث بند ہو گئے ہیں۔ 

'انرا' کے آن لائن ٹریکنگ پلیٹ فارم کے مطابق ہفتے کو صرف 27 امدادی ٹرک غزہ میں پہنچے تھے جس کے بعد رفح یا کیریم شالوم کے راستے کوئی امداد علاقے میں نہیں آ سکی۔ ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو صحت مند رکھنے کے لیے علاقے میں روزانہ 500 امدادی ٹرکوں کی ضرورت ہے۔ 

طبی مراکز مدد سے محروم

اپریل میں رفح اور کیریم شالوم کی سرحدی گزرگاہوں سے مجموعی طور پر 5,600 امدادی ٹرک غزہ میں آئے تھے جبکہ مئی میں اب تک ان کی تعداد 1,400 رہی ہے۔

گزشتہ 10 روز سے طبی مراکز کو کسی طرح کی کوئی مدد نہیں مل سکی۔ سات ماہ کی شدید بمباری کے بعد غزہ کی نصف آبادی یا 11 لاکھ لوگوں کو اس قدر شدید درجے کی بھوک کا سامنا ہے جسے اقوام متحدہ نے قحط کے مترادف قرار دیا ہے۔

غزہ کے طبی حکام کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کے بعد علاقے میں 35 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک اور 79 ہزار سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔ علاقے میں 17 ہزار بچے لاوارث ہیں یا اپنے خاندانوں سے بچھڑ چکے ہیں۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے اسرائیلی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ غزہ میں اسرائیل اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے 128 افراد تاحال یرغمال ہیں۔