انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ: وسیع انخلاء کے پیش نظر یو این کا امدادی کارروائیاں تیز کرنے کا مطالبہ

غزہ میں جاری لڑائی میں لوگ جان بچانے کے لیے محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔
© UNICEF/Eyad El Baba
غزہ میں جاری لڑائی میں لوگ جان بچانے کے لیے محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔

غزہ: وسیع انخلاء کے پیش نظر یو این کا امدادی کارروائیاں تیز کرنے کا مطالبہ

امن اور سلامتی

غزہ میں حالیہ دنوں کم از کم ایک لاکھ لوگوں کی رفح کو نقل مکانی کے باعث علاقے میں پہلے سے سنگین حالات بدترین صورت اختیار کر گئے ہیں۔ امدادی اداروں نے زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے امدادی حجم میں فوری اضافے کے لیے کہا ہے۔

ہنگامی امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار مارٹن گرفتھس نے بتایا ہے کہ جنگ سے تباہ حال لوگوں کی بہت بڑی تعداد چھوٹے سے علاقے میں جمع ہے۔ فضا سے اسرائیل کی متواتر بم باری اور زمین پر جاری شدید لڑائی کے باعث ان لوگوں کو امداد کی فراہمی میں کڑی مشکلات حائل ہیں۔

Tweet URL

7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں اور اسرائیلی فوج کی جوابی کارروائی کے بعد غزہ میں 19 لاکھ لوگ یا علاقے کی 85 فیصد آبادی بے گھر ہو گئی ہے۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے کہا ہے کہ پناہ گاہوں میں حاملہ خواتین کی قریباً نصف تعداد پیاس اور غذائی قلت سے دوچار ہے اور انہیں طبی خدمات بھی میسر نہیں۔ نومولود بچوں کے لیے حفاظتی ٹیکے دستیاب نہیں اور بے گھر بچوں کی نصف تعداد کو پانی و خوراک کی قلت اور بیماریوں کا سامنا ہے۔ 

گنجان ترین علاقہ

'اوچا' کے مطابق جنوب میں خان یونس اور وسطی غزہ کے علاقے دیر البلاع میں شدید لڑائی کے باعث بڑی تعداد میں مزید لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ اسرائیل کی فوج نے لوگوں کو ان علاقوں سے انخلا کا حکم بھی دے رکھا ہے۔ 

تقریباً 10 روز قبل بھی غزہ میں رفح سب سے زیادہ گنجان آبادی والا علاقہ بن چکا تھا جہاں فی مربع کلومیٹر میں لوگوں کی اوسط تعداد 12 ہزار سے بڑھ گئی تھی جو کہ نیویارک سے بھی زیادہ ہے۔ 

امداد کی رسائی میں مشکلات

جمعرات کو امدادی سامان کے 76 ٹرک مصر سے رفح کے راستے سے غزہ پہنچے۔ یہ تعداد 7 اکتوبر سے پہلے علاقے میں آنے والے سازوسامان سے کہیں کم ہے جب روزانہ 500 ٹرک غزہ آ رہے تھے۔

گزشتہ ہفتے سلامتی کونسل میں منظور کی جانے والی قرارداد میں امداد کا حجم بڑھانے کے مطالبے کے باوجود لوگوں کو اشیائے ضرورت کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

مارٹن گرفتھس نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں اور ان کی مدد کرنے والوں کو ایسی صورتحال کا سامنا ہے جس سے نکلنے کا حل ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ مدد پہنچانے کے لیے لڑائی روکنا ہو گی۔ غزہ میں امداد کی فراہمی کوئی آسان کام نہیں ہے۔

انہوں نے امدادی کارکنوں کے کام میں حائل رکاوٹوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کسی ٹرک کو غزہ میں داخلے سے پہلے ہی تین مرتبہ معائنہ کروانا پڑتا ہے۔ غزہ میں داخلے کے مقامات بہت کم ہیں، علاقے میں متواتر بم باری ہو رہی ہے اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں۔ 

گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نےکہا تھا کہ غزہ میں موثر امدادی کارروائی تحفظ کا تقاضا کرتی ہے۔ امدادی عملے کو محفوظ ہونا چاہیے، امداد کے لیے انصرامی صلاحیت بڑھائی جانی چاہیے اور تجارتی سرگرمیوں کی بحالی بھی ضروری ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت یہ چاروں چیزیں غزہ میں وجود نہیں رکھتیں۔

غزہ کے بحران میں بے گھر ہونے والے لوگ رفع کے ایک کیمپ میں خوراک ملنے کے منتظر ہیں۔
© WHO
غزہ کے بحران میں بے گھر ہونے والے لوگ رفع کے ایک کیمپ میں خوراک ملنے کے منتظر ہیں۔

خوراک فراہمی کی فوری ضرورت

مشکلات کے باوجود امدادی ادارے غزہ کے مایوس لوگوں کو مدد پہنچانے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔

فلسطین کے لیے 'ڈبلیو ایف پی' کے نمائندے سمیر عبدالجبار نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر بتایا ہے کہ غزہ میں زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے خوراک کی فوری فراہمی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے امدادی ٹیموں اور مقامی لوگوں میں غیرمعمولی تعاون دیکھنے کو مل رہا ہے۔ 

جمعرات کو اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے رفح کے ایک امدادی کیمپ میں خوراک کے 10  ہزار پیکٹ تقسیم کیے۔ ان میں ہر پیکٹ ایک خاندان کی 10 روزہ غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ 

غزہ کی 22 لاکھ آبادی کو شدید درجے کے غذائی عدم تحفظ کی بحرانی یا بدترین صورت اور ایک چوتھائی گھرانوں کو تباہ کن بھوک کا سامنا ہے۔ تحفظ خوراک سے متعلق تازہ ترین جائزے (آئی پی سی) کے مطابق ان حالات پر قابو نہ پایا گیا تو غزہ میں آئندہ چھ ماہ تک قحط پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔