انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ: ہسپتال کی تباہی پر ڈبلیو ایچ او چیف نے دہرایا جنگ بندی کا مطالبہ

غزہ میں جاری لڑائی میں لوگ جان بچانے کے لیے محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔
© UNICEF/Eyad El Baba
غزہ میں جاری لڑائی میں لوگ جان بچانے کے لیے محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔

غزہ: ہسپتال کی تباہی پر ڈبلیو ایچ او چیف نے دہرایا جنگ بندی کا مطالبہ

امن اور سلامتی

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے اسرائیل کی فوج کے ہاتھوں شمالی غزہ کے کمال عدوان ہسپتال کی تباہی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ غزہ کا طبی نظام پہلے ہی تباہ کن حالات سے دوچار تھا اور اب اس ہسپتال کا خاتمہ ایک اور بڑا دھچکا ہے۔

Tweet URL

گزشتہ ہفتے چار روز تک اسرائیل کے حملوں کی زد میں رہنے والا یہ ہسپتال اب کھنڈر دکھائی دیتا ہے۔ ان حملوں میں نو سالہ بچے سمیت آٹھ مریض ہلاک ہو گئے تھے۔ 'ڈبلیو ایچ او' نے بتایا ہے کہ ہسپتال میں کام کرنے والے عملے کے متعدد ارکان کو اسرائیل کی فوج نے گرفتار کر لیا ہے۔غزہ کے 36 ہسپتالوں میں ایک تہائی سے بھی کم فعال رہ گئے ہیں جن میں صرف ایک شمالی غزہ میں واقع ہے۔

ڈائریکٹر جنرل نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر کہا ہےکہ ہسپتالوں، طبی عملے اور مریضوں پر حملے بند ہونے چاہئیں اور جنگ کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔ 

بےگھروں کے خیموں کی تباہی

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (وچا) نے بتایا ہے کہ ہفتے کو اسرائیل کی فوج نے اپنی کارروائی مکمل کر کےہسپتال خالی کر دیا۔ اس دوران ہسپتال کے احاطے میں سیکڑوں پناہ گزینوں کے خیمے بلڈوزروں کے ذریعے اکھاڑ دیے گئے۔ اس کارروائی میں متعدد افراد ہلاک و زخمی بھی ہوئے۔

'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا ہے کہ کمال عدوان ہسپتال کے بیشتر عملے کو صحت و زندگی کے خطرات کی وجہ سے خود ہی انخلا کرنا پڑا۔ حملوں کے دوران ایمبولینس گاڑیوں کے لیے ہسپتال تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ ادارے کو بے گھر لوگوں کی خیریت پر سخت تشویش ہے۔

'اوچا' کے مطابق راملہ میں فلسطینی وزارت صحت نے اس واقعے کی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔ ادارے نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج نے اس دوران 90 افراد کی گرفتاری اور ہسپتال سے ہتھیار اور گولہ بارود برآمد ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ 

غزہ میں مواصلاتی انقطاع

گزشتہ جمعرات کو غزہ میں شروع ہونے والے مواصلاتی انقطاع اور انٹرنیٹ بند ہونے سے علاقے میں انسانی حالات کے بارے میں محدود معلومات ہی موصول ہو رہی ہیں۔ 'اوچا' کے مطابق غزہ کے حکام مواصلاتی رابطے ختم ہونے کے بعد انسانی نقصان کے بارے میں تازہ ترین اطلاعات نہیں دے سکے۔ 

اب تک حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق غزہ میں 18,787 افراد ہلاک اور 50 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ 

'اوچا' نے ہفتے کے اختتام پر غزہ بھر اور خاص طور پر خان یونس اور شمالی غزہ میں شدید بمباری کی اطلاع دی ہے۔ خان یونس اور رفح میں اسرائیلی فوج اور فلسطینی مسلح گروہوں کے مابین شدید لڑائی جاری ہے۔ فلسطینی مسلح گروہوں کی جانب سے بھی اسرائیل پر متواتر راکٹ باری کی جا رہی ہے۔ 

انسانی امداد میں اضافے کی امید

جمعے کو امداد کی فراہمی کے لیے اسرائیل اور غزہ کے مابین کیریم شالوم کا سرحدی راستہ کھولے جانے سے امدادی حجم میں اضافے کی امید پیدا ہوئی ہے۔ امدادی اداروں نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔

7 اکتوبر کے بعد اتوار کو پہلی مرتبہ یہ راستہ کھولا گیا تھا۔ اس سے پہلے غزہ کو امداد کی فراہمی صرف رفح کی سرحد سے ہی جاری تھی جس کا آغاز 21 اکتوبر کو ہوا۔

غزہ میں بیشتر آبادی بے گھر ہے جو اسرائیل کی فوج کے احکامات پر جنوبی علاقے میں ایک محدود جگہ پر جمع ہو چکی ہے۔ ان لوگوں کو نکاسی آب کی مناسب سہولت میسر نہیں اور پانی اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

'اوچا' کے سربراہ مارٹن گرفتھس نے کہا ہے کہ کیریم شالوم کا سرحدی راستے کھولنے کے معاہدے پر تیزرفتار عملدرآمد سے امداد کی ترسیل بڑھانے میں مدد ملے گی۔ تاہم غزہ کے لوگوں کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ 'جنگ بندی' ہے۔