انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ کے ہسپتالوں پر حملے غیر انسانی اور قابل مذمت: گرفتھس

غزہ کا الشفاء ہسپتال بے گھر لوگوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے۔
© WHO
غزہ کا الشفاء ہسپتال بے گھر لوگوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے۔

غزہ کے ہسپتالوں پر حملے غیر انسانی اور قابل مذمت: گرفتھس

امن اور سلامتی

غزہ کے الشفا ہسپتال پر بمباری کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ طبی مراکز میں یا ان کے قریب کسی بھی طرح کی جنگی کارروائیاں ناجائز ہیں جنہیں فوری بند ہونا چاہیے۔

ہنگامی امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار مارٹن گرفتھس نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر کہا ہے کہ طبی مراکز پر حملہ کرنے اور انہیں بجلی، خوراک یا پانی سے محروم رکھنے، مریضوں اور علاقہ چھوڑنے والے شہریوں کو نشانہ بنانے جیسے اقدامات جنگی قوانین کے منافی، ناواجب اور قابل مذمت ہیں۔

Tweet URL

ان کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں کو حملوں سے محفوظ اور وہاں جانے والوں کو اعتماد ہونا چاہیے کہ طبی مراکز جنگ کے بجائے پناہ کی جگہ ہیں۔ 

دوسری جانب اسرائیل کی فوج نے الشفا ہسپتال کو نشانہ بنائے جانے کی تردید کی ہے، تاہم اس کے قریب لڑائی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ہسپتال کے تہہ خانے میں حماس کی کمانڈ پوسٹ قائم ہے۔

متناسب طاقت کا اصول

معالجین کے ایک غیرسرکاری ادارے کے مطابق اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں الشفا ہسپتال میں بجلی مہیا کرنے والا آخری فعال جنریٹر بند ہو جانے سے چند گھنٹوں بعد دو نومولود بچے ہلاک ہو گئے۔ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ اب ہسپتال میں پانی، خوراک اور بجلی نہیں ہے۔ 

مقبوضہ فلسطینی علاقے کے لیے اقوام متحدہ کی نمائندہ اور امدادی رابطہ کار لین ہیسٹنگز  نے امدادی مقاصد کے لیے فوری جنگ بندی کے مطالبے کو دہرایا ہے۔

انہوں نے واضح کیا ہے کہ شہری تنصیبات کو عسکری کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ مریضوں، طبی عملے اور ہسپتالوں میں پناہ لینے والے بےگھر لوگوں کو تحفط ملنا چاہیے اور جنگی کارروائیوں کے دوران متناسب طاقت کے استعمال اور اہداف میں تمیز کے اصولوں کا احترام کیا جانا ضروری ہے۔

'او سی ایچ اے' کے مطابق غزہ کی وزارت صحت نے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد غزہ میں 10,800 افراد ہلاک اور 26,900 سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔ 

اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے دہشت گرد حملوں میں اس کے 1,200 شہری ہلاک ہوئے۔ قبل ازیں یہ تعداد تقریباً 1,400 بتائی گئی تھی۔ 

سولی پر اٹکی زندگیاں

اقوام متحدہ کےا دارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بتایا ہے کہ خاص طور پر شمالی غزہ میں طبی سہولیات اور خدمات پر حملوں کے نتیجے میں ان کی معطلی کے بعد زندگیوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

غزہ کی پٹی میں بچوں کے الرنتیسی اور النصر ہسپتال تقریباً بند ہو چکے ہیں اور انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ایک چھوٹا سا جنریٹر ہی کام کر رہا ہے۔ 

غزہ کی پٹی کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں طبی مراکز پر زخمیوں کی بہت بڑی تعداد کے باعث پہلے ہی شدید دباؤ ہے اور اب شمالی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد کے بعد وہاں مزید گنجان ماحول میں لوگوں کو علاج مہیا کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔

یونیسف کا کہنا ہے کہ جو طبی سہولیات فعال ہیں ان کی مدد ہونی چاہیے اور انہیں مضبوط کیا جانا چاہیے تاکہ وہ بڑھتے ہوئے مسائل سے نمٹ سکیں۔

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے یونیسف کی ریجنل ڈائریکٹر اڈیل خودر  نے کہا ہے کہ غزہ کے بچوں سے جینے اور صحت مند رہنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ جنگی قوانین کے تحت ہسپتالوں کو تحفظ دینا اور انہیں لوگوں کی زندگی بچانے کے لیے درکار سازوسامان کی فراہمی ایک لازمی ذمہ داری ہے اور اس وقت دونوں کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کی زندگیوں کو شدید خطرہ لاحق ہے اور شمالی علاقے میں رہنے والے بچوں کے لیے کہیں بھی محفوط جگہ نہیں رہی اور وہ سنگین خطرات سے دوچار ہیں۔