انسانی کہانیاں عالمی تناظر

انڈیا کشمیری سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ بند کرے: ماہر انسانی حقوق

سری نگر جموں و کشمیر میں نمازِ جمعہ کے لیے لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں۔
©John Isaac
سری نگر جموں و کشمیر میں نمازِ جمعہ کے لیے لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں۔

انڈیا کشمیری سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ بند کرے: ماہر انسانی حقوق

انسانی حقوق

انسانی حقوق کے محافظوں کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار میری لالور نے انڈیا سے کشمیر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی فوری روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس معاملے میں بھرپور احتساب کے لیے کہا ہے۔

انہوں ںے یہ اپیل حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی نمایاں شخصیت خرم پرویز کی حالیہ گرفتاری کے بعد کی ہے جو سازش اور دہشت گردی کے الزامات میں ایک سال سے زیادہ عرصہ تک قید میں رہے ہیں۔

Tweet URL

میری لالور نے کہا ہے کہ ''انڈیا کے حکام کشمیری سول سوسائٹی پر طویل عرصہ سے جاری جبر میں اضافہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کا احترام کرے اور ان کی خلاف ورزیوں پر اسے جواب دہ ہونا چاہیے۔''

تفتیش اور گرفتاری

خرم پرویز نے انڈیا کے زیرانتظام جموں اور کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تفصیلات جمع کی ہیں اور وہ نومبر 2021 سے زیرحراست رہے ہیں۔

انہیں بدھ کو ''انڈیا کے انسداد دہشت گردی کے مرکزی ادارے 'نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی' کی جانب سے دو روزہ تفتیش'' کے بعد ایک اور مقدمے میں بدھ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت ان پر 'جموں و کشمیر میں سول سوسائٹی کے اتحاد' (جے کے سی سی ایس) کے ساتھ اپنے کام کے ذریعے دہشت گردی کے لیے مالی مدد فراہم کرنے کا الزام تھا۔ اس غیرسرکاری تنظیم (این جی او) کا تعلق سری نگر شہر سے ہے۔

جبر اور دھمکیاں

ان کی گرفتاری سے پہلے سوموار کو 'جے کے سی سی ایس' کے سابق رکن، صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن عرفان مہراج کو سری نگر میں اسی مقدمے میں گرفتار کیا گیا جس کے بعد انہیں فوری طور پر انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں منتقل کر دیا گیا۔

میری لالور نے کہا کہ انسانی حقوق کی نگرانی کا اہم کام انجام دینے والی این جی او 'جے کے سی سی ایس' کے کارکنوں اور رضاکاروں کو حکام کی جانب سے جبر اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق اس کی تحقیق اور تجزیہ نمایاں اہمیت رکھتا ہے اور بین الاقوامی اداروں کے لیے بھی اس کا کام اہم ہے جو یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ حقوق پامال کرنے والوں کا احتساب ہو اور ایسے واقعات کے دوبارہ ارتکاب کو روکا جائے۔''

کشمیری کارکنوں کو رہا کیا جائے

انہوں نے بتایا کہ انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ماہرین نے غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے حوالے سے اپنے سنگین خدشات کو تواتر سے واضح کیا ہے۔ یہ قانون کسی بھی فرد کو ''دہشت گرد'' قرار دینے کی اجازت دیتا ہے جس کے لیے اس کی کسی کالعدم گروہ میں رکنیت یا اس سے وابستگی کا ٹھوس ثبوت ہونا بھی ضروری نہیں۔

انہوں ںے کہا کہ اس قانون کو جموں و کشمیر میں سول سوسائٹی، ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف جبر کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

میری لالور نے مطالبہ کای کہ انسانی حقوق کے کشمیری محافظوں کو رہا کیا جائے اور ان کے خلاف تفتیش بند کی جائے۔ پُرامن اجتماع اور میل جول کی آزادی کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار کلیمنٹ نیلٹسوسی وولے نے بھی ان کے اس بیان کی توثیق کی ہے۔

احتساب کا مطالبہ

میری لالور نے کہا کہ ''بارہا حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ ملک میں انسداد دہشت گردی کے فریم ورک سے متعلق بنیادی مسائل کو حل کرے اور انسانی حقوق کے محافظوں کو بدنام کرنے اور انہیں خاموش کرانے کے لیے اس کا غلط استعمال بند روکے۔

لوگوں کو اپنے انسانی حقوق سے کام لینے کی پاداش میں گرفتار اور قید کرنا غیرقانونی ہے۔ جہاں ایسے اقدامات ہوں وہاں احتساب اور متاثرین کو انصاف کی فراہمی ضروری ہے۔''

اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار

خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے متعین کردہ آزاد ماہرین ہیں جو حقوق سے متعلق مخصوص مسائل یا کسی ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کی نگرانی کرتے اور اس کی اطلاع دیتے ہیں۔

یہ ماہرین اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا کوئی معاوضہ وصول نہیں کرتے۔