ترکیہ اور شام میں زلزلہ تباہی قیامت انگیز ہے: سربراہ عالمی ادارہ خوراک
اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے خوراک کے سربراہ نے ہفتے کو شام اور ترکیہ میں زلزلے سے تباہ حال علاقوں اور امداد کی فراہمی کے راستوں کا دورہ مکمل کیا۔ انہوں ںے حکام سے کہا ہے کہ وہ مزید سرحدی راستے کھولیں تاکہ دونوں ممالک میں متاثرین کی مدد ہو سکے۔
ڈبلیو ایف پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیزلی کا کہنا ہے کہ ''اگرچہ دنیا ترکیہ اور شام میں زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے فوری طور پر متحرک ہوئی ہے تاہم اس زلزلے کے اثرات آنے والے مہینوں اور سالوں تک محسوس ہوتے رہیں گے۔''
I'm here in #Turkiye, where @WFP is supporting nearly 1 million people impacted by these devastating earthquakes. Our teams are going all out – from delivering hot meals & family food packages to setting up 500+ mobile kitchens with local partners. More to come! https://t.co/bRwEZ2Xfth
WFPChief
انہوں نے جنوبی ترکیہ کے علاقے ہاتائے کے دورے میں ''ناقابل تصور'' بربادی اور ''تباہ شدہ'' منظرنامے کا تذکرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ''جنوبی ترکیہ اور شمال مغربی شام میں 18 ملین لوگ زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں اور ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں جبکہ لاکھوں لوگوں نے اپنے گھر، روزگار اور اثاثے کھو دیے ہیں۔''
تباہی کے حالات
انہوں نے متعدد متاثرہ علاقوں کے دورے میں کہا کہ انطاکیہ اب ''تقریباً ویران'' ہو چکا ہے جہاں بڑی تعداد میں ہلاکتیں اور تباہی دیکھنے کو ملی ہے۔ گھروں، سکولوں، دکانوں اور اہم تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے یا وہ تباہ ہو گئی ہیں۔
ڈیوڈ بیزلی کا کہنا تھا کہ ''میں نے آج جو کچھ دیکھا اسے بیان کرنے کے لیے ایک ہی لفظ ہے اور وہ ''تباہی'' ہے۔ پورے علاقے مسمار ہو چکے ہیں، گھر تباہ ہو گئے ہیں، سکول اور دکانیں بند ہیں، زندگی بکھر گئی ہے۔ یہاں تباہی کا حجم واقعتاً ناقابل تصور ہے۔''
انہوں نے بویونیون میں پناہ گزینوں کے کیمپ میں ایسے خاندانوں سے ملاقات کی جن کے گھر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ یہ ساتواں کیمپ ہے جہاں ڈبلیو ایف پی سالہا سال سے شام کے پناہ گزینوں کو مدد پہنچا رہا ہے۔
ڈبلیو ایف پی نے کہا ہے کہ اب اس امداد کا دائرہ زلزلے کے باعث بے گھر ہونے والے ترک خاندانوں تک بھی پھیلا دیا گیا ہے۔
انہوں نے شام میں صورتحال کو ''تباہی پر تباہی'' قرار دیا۔ یہ زلزلہ ایسے وقت آیا ہے جب ملک 12 سال سے مسلح تنازعے کا شکار ہے اور بری طرح متاثرہ علاقوں میں اس حجم کی آفت کے اثرات سے نمٹنے کے لیے صلاحیت اور بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔
مزید سرحدیں کھولی جائیں
ڈبلیو ایف پی کے سربراہ نے اقوام متحدہ کے مرکز برائے نقل و حمل میں ٹرکوں پر خوراک اور ہنگامی ضرورت کا دیگر سامان لادے جاتے دیکھا۔ ڈرائیور تحفظ زندگی میں مدد دینے والا یہ سامان باب الہوا کے سرحدی راستے کے ذریعے شمال مغربی شام کے علاقوں میں پہنچائیں گے جو حکومت مخالف گروہوں کے زیرتسلط ہیں۔
ڈیوڈ بیزلی نے 21 ٹرکوں پر مشتمل قافلے کو 380 ٹن خوراک شام میں لے جاتے دیکھا اور کہا کہ ''ہمارے ٹرک روانہ ہو رہے ہیں اور اس خوراک اور دیگر سامان سے واقعتاً ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو تحفظ ملے گا۔''
13 فروری کو سرحدی راستہ دوبارہ کھولے جانے کے بعد ڈبلیو ایف پی نے 180 ٹرکوں کو شمال مغربی شام لے جانے میں مدد دی ہے۔
امداد کی فراہمی کے لیے حال ہی میں اہم راستے دوبارہ کھولے جانے کا خیرمقدم کرتے ہوئے انہوں نے متحارب فریقین کے زیرانتظام علاقوں کے آر پار امداد کی فراہمی جاری رکھنے اور اسے وسعت دینے کی ضرورت کو واضح کیا۔ اس حوالے سے انہوں نے تمام فریقین سے کہا کہ وہ اس رسائی میں مزید سہولت دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ''شمال مغربی شام میں ہر سمت اور ہر راستے سے لوگوں تک بلا روک و ٹوک غذائی امداد پہنچنی چاہیے۔''
2.3 ملین لوگوں تک رسائی
زلزلوں کے بعد ڈبلیو ایف پی نے تیزی سے متحرک ہو کر دونوں ملکوں کے آر پار 2.3 ملین سے زیادہ متاثرین کو امداد پہنچائی ہے۔
دریں اثنا، ترکیہ میں ہنگامی اقدامات کے لیے ڈبلیو ایف پی کو درکار مالی وسائل کا حجم 80 ملین ڈالر ہے جس سے خوراک اور نقد رقم کے ذریعے امدادی کام کو تیزی سے بڑھایا جانا ہے جبکہ شام میں 800,000 متاثرین کو چھ ماہ تک مدد پہنچانے کے لیے 150 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔
شام بھر میں ہر ماہ 5.5 ملین لوگوں کے لیے ڈبلیو ایف پی کے غذائی امداد کے پروگرام کو برقرار رکھنے کے لیے مزید 300 ملین ڈالر درکار ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اگر یہ مدد موصول نہیں ہوتی تو عالمی پروگرام برائے خوراک چند ہی ماہ میں شام کے 3.8 ملین لوگوں کو امداد کی فراہمی معطل کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔