انسانی کہانیاں عالمی تناظر

انٹرویو: جنگوں میں جنسی تشدد کا مسئلہ خاموشی کی نظر ہو جاتا ہے، پیٹن

دوران جنگ جنسی تشدد کے خاتمے پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خصوصی اطلاع کار پرامیلا پیٹن سلامتی کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کر رہی ہیں (فائل فوٹو)۔

جنسی تشدد اب بھی بطور جنگی چال، دہشت گردی کے ہتھکنڈے اور سیاسی جبر کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے

UN Photo/Eskinder Debebe
دوران جنگ جنسی تشدد کے خاتمے پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خصوصی اطلاع کار پرامیلا پیٹن سلامتی کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کر رہی ہیں (فائل فوٹو)۔

انٹرویو: جنگوں میں جنسی تشدد کا مسئلہ خاموشی کی نظر ہو جاتا ہے، پیٹن

خواتین

دوران جنگ جنسی تشدد ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے خلاف کبھی بھرپور آواز نہیں اٹھائی گئی اور اب بھی یہ سنگین جرم بڑی حد تک نظرانداز ہو رہا ہے۔

انیس جون کو اس جرم کی روک تھام اور اس کا خاتمہ کرنے کا عالمی دن منایا گیا۔ اس موقع پر دوران جنگ جنسی تشدد کے خاتمے پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار پرامیلا پیٹن نے یو این نیوز سے اس مسئلے پر بات چیت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ دوران جنگ جنسی تشدد کا مقصد ناصرف کسی فرد کو تکلیف دینا بلکہ خوف و ہراس پھیلانے کے لیے اس کے خاندان، قریبی لوگوں اور معاشرے کو نقصان پہنچانا بھی ہوتا ہے۔ 

دوران جنگ جنسی تشدد کے تمام واقعات سامنے نہیں آتے جس کی بڑی وجہ اس سے جڑی بدنامی ہے۔ اس جرم کے متاثرین کو عام طور پر جنسی زیادتی اور معاشرے سے اخراج کی صورت میں دہرے المیے کا سامنا ہوا ہے۔ یہ واحد جرم ہے جس پر معاشرہ مجرموں سے زیادہ متاثرین کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ علاوہ ازیں، متاثرین کو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی اطلاع دینے پر انتقامی کارروائی کا خوف بھی رہتا ہے۔ 

ریاستی و غیرریاستی کردار بھی اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور کئی طرح کے تناظر میں متاثرین کا نظام ہائے انصاف پر اعتماد بھی نہیں ہوتا۔

یوکرین کے خلاف جاری روسی جارحیت کے واقعات و الزامات میں جنسی تشدد بھی شامل ہے۔
© UNFPA Ukraine / Isaac Hurskin
یوکرین کے خلاف جاری روسی جارحیت کے واقعات و الزامات میں جنسی تشدد بھی شامل ہے۔

یو این نیوز: دوران جنگ جنسی تشدد کس قدر عام ہے؟

پرامیلا پیٹن: جنگوں میں کیے جانے والے جنسی جرائم کے بارے میں درست تفصیلات کا حصول آسان نہیں ہے۔ میں یہاں ایک مثال دوں گی کہ گزشتہ سال میں نے سیکرٹری جنرل کو پیش کی جانے والی اپنی رپورٹ میں 2022 کے دوران جمہوریہ کانگو میں ایسے تقریباً 1,000 واقعات کا تذکرہ کیا تھا۔

جب میں نے یونیسف کی جاری کردہ معلومات دیکھیں تو ان میں 32,000 واقعات کا تذکرہ تھا اور اقوام متحدہ کے جنسی و تولیدی صحت کے ادارے (یو این ایف پی اے) نے اُسی برس 38,000 واقعات کی اطلاع دی تھی۔ یہ دیکھ کر میں پریشان ہو گئی۔ 

چنانچہ میں نے اپنی معلومات کو بہتر بنانے کے لیے جمہوریہ کانگو کا دورہ کیا اور ایسے واقعات کی اطلاع دینے میں حائل مسائل کا بذات خود جائزہ لیا۔ 

یو این نیوز: رواں سال آپ کو اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے ہوئے 15 برس ہو جائیں گے۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ اس عرصہ میں کیا کچھ ہوا اور کیا تبدیلیاں آئیں؟ 

پرامیلا پیٹن: 2009 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے خواتین اور لڑکیوں کے نقطہ نگاہ سے جنسی تشدد کا جائزہ لیا جن کے جسم انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی میدان جنگ میں ہدف رہے ہیں۔ 

سلامتی کونسل کی قرارداد 1888 کے ذریعے مجھے اپنی موجودہ ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس قرارداد کے بعد دوران جنگ جنسی تشدد کے بارے میں نقطہ نظر میں نمایاں تبدیلی آئی اور اسے جنگ میں ہونے والے ضمنی نقصان کے بجائے جنگ کا نتیجہ اور ایسا جرم قرار دیا گیا جس کی روک تھام ممکن ہے۔

یہ پہلا موقع تھا جب اس جرم کے حوالے سے انصاف اور تحفظ پر مبنی اقدامات کی ضرورت محسوس ہوئی۔ لہٰذا میں نے دوران جنگ جنسی تشدد کی روک تھام اور اس کا خاتمہ کرنے کے اقدامات سے متعلق ایک سٹریٹیجک اور مربوط رہنمائی مہیا کی۔ 

قرارداد 1888 کے بعد سلامتی کونسل نے دوران جنگ جنسی تشدد کی روک تھام اور خاتمے سے متعلق پانچ قراردادیں منظور کیں۔ ان میں اس جرم کی نگرانی، تجزیے اور اس سے متعلق اطلاعات کی فراہمی کے انتظامات، مردوں اور لڑکوں پر ہونے والے جنسی تشدد کے اعتراف اور متاثرین پر مرتکز ایسے طریقہ ہائے کار کی تیاری بھی شامل تھی جن سے ایسے تشدد کی روک تھام اور اس کے خاتمے میں مدد ملتی ہو۔

لہٰذا آج ہمیں ان قراردادوں کو مسائل کے حل میں تبدیل کرنے اور یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ان پر بہتر طریقے سے عملدرآمد ہو اور ان سے مثبت نتائج سامنے آئیں کیونکہ زمینی حقائق بہت مختلف ہوتے ہیں۔

عراق میں جنگ سے تباہ حال ایک علاقے میں بچے کھیل کود میں مصروف ہیں۔
© UNICEF/UN0330643/Anmar

یو این نیوز: اس حوالے سے اب تک کتنی پیش رفت ہوئی ہے؟ 

پرامیلا پیٹن: جنسی تشدد سے اب بھی جنگی چال، دہشت گردی کے ہتھکنڈے اور سیاسی جبر روا رکھنے کا کام لیا جاتا ہے۔ ہر نئی جنگ میں ہم جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات دیکھتے ہیں۔ 

اس جرم پر قابو پانے کے لیے کام کرنے والے اداروں کو امدادی مالی وسائل کی قلت کا سامنا ہے۔ اسی لیے متاثرین کو وہ خدمات نہیں مل پاتیں جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ 

قرارداد 1888 کے ذریعے ہمیں جو ذمہ داری دی گئی تھی اس کی وجہ سے آج ہم ان ہزاروں متاثرین تک پہنچ سکتے ہیں جو پہلے دکھائی نہیں دیتے تھے۔ گزشتہ 15 برس میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے اور اب متاثرین خود بھی سامنے آتے ہیں۔ تاہم اب بھی بہت سا کام باقی ہے لیکن متاثرین کے طرزعمل میں آنے والی مثبت تبدیلی حوصلہ افزا ہے۔ 

میری رائے میں یہ سب کچھ ہمارے دفتر کے قیام کے نتیجے میں ہی ممکن ہوا۔

اس کے ساتھ میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ جرم کی روک تھام ہی اس سے تحفظ دینے کا بہترین طریقہ ہے۔ یہاں ہم ایسے جرم کی بات کر رہے ہیں جس کی بنیادی وجوہات پر قابو پا کر اس کی روک تھام ممکن ہے۔ اس سلسلے میں امن کے ادوار میں صنفی عدم مساوات، تفریق، پسماندگی اور غربت پر قابو پا کر مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں کہ یہ عوامل ہی اس مسئلے کے غیرمرئی محرکات ہیں جبکہ اس کے ساتھ انصاف اور احتساب یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ 

یو این نیوز: آپ کی ذمہ داریوں کا مشکل ترین حصہ کون سا ہے؟ 

پرامیلا پیٹن: مجھے شمال مشرقی نائجیریا میں واقع میڈگوری کیمپ میں اپنا پہلا مشن اب بھی یاد ہے جہاں میں نے ایسی نوعمر لڑکیوں کو دیکھا جنہوں نے کچھ ہی عرصہ پہلے بوکو حرام کی قید سے آزادی پائی تھی۔ وہاں ایک کمرے میں 12 سے 14 برس تک عمر کی 200 لڑکیاں موجود تھیں جن کی گود میں بچے بھی تھے۔ میں نے اپنے عملے سے ان بچوں کی گنتی کرنے کو کہا جن کی تعداد 166 تھی۔

ان لڑکیوں نے بتایا کہ بوکو حرام سے آزادی کے بعد ان کی تکالیف ختم نہیں ہوئیں۔ ان کے پاس ضرورت کے مطابق خوراک نہیں تھی۔ ان کے بچے بھی مناسب خوراک سے محروم تھے۔ انہیں بوکو حرام کی بیویاں اور ان کے بچوں کو بوکو حرام کے سانپ کہا جاتا اور کیمپ میں جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا۔

اس کے علاوہ مجھے عراق میں ایک یزیدی لڑکی سے اپنی ملاقات بھی یاد ہے جو میرے سامنے ایک زندہ لاش کی طرح بیٹھی تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ جب اسے داعش کی قید سے رہائی ملی تو وہ نیم بیہوشی کی حالت میں تھی اور کئی گھنٹوں کے بعد ہوش و حواس میں آئی۔ 

اسی طرح مجھے 2017 کے بعد تین مرتبہ بنگلہ دیش کے علاقے کاکس بازار میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپ میں جانے کا موقع ملا جہاں خواتین اور لڑکیوں نے بتایا کہ انہیں میانمار میں پتھروں اور درختوں سے باندھ کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

ایسی باتیں سننا بہت مشکل ہوتا ہے اور آپ بے بس محسوس کرتے ہیں۔ تاہم ایسے لوگوں سے ملنے کے بعد آپ ان کے لیے امید بھی پیدا کرتے ہیں۔ ان ملاقاتوں کے بعد میں نے ان کے لیے مالی وسائل جمع کیے کیونکہ اب میں ان کی ضروریات کو جانتی اور ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو بہتر طور سے سمجھ سکتی تھی۔ 

نائجیریا کے علاقے بورنو میں نقل مکانی پر مجبور پناہ گزینوں کا ایک کیمپ۔
UNOWAS/Seye

یو این نیوز: کیا آپ دوران جنگ جنسی تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر ان متاثرین کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گی۔

پرامیلا پیٹن: متاثرین کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ جن خواتین اور لڑکیوں بلکہ مردوں اور لڑکوں کو بھی بدقسمتی سے ایسے جرم کا سامنا ہو وہ خاموش مت رہیں۔ ان کی خاموشی مجرموں کی یہ جرم کرتے رہنے کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ 

میں انہیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں ان کی تکالیف دور کرنے کا عزم رکھتی ہوں اور ان کے لیے کام کروں گی۔ تاہم میرا اس جرم کے ذمہ داروں کے لیے بھی ایک پیغام ہے اور وہ یہ کہ میرا دفتر اور میری ماہرین کی ٹیم اقوام متحدہ کے پورے نظام کی مدد سے انصاف اور احتساب کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان مجرموں کو اپنے کیے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ انصاف دینے میں تاخیر تو ہو سکتی ہے لیکن ہم تمام متاثرین کو اس کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔

نوٹ: وضاحت اور اختصار کے مقصد سے اس بات چیت کو مدون کیا گیا ہے۔