طوفانی بارشوں، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں بائیس لاکھ سے زیادہ مکان اور 13 فیصد سے زیادہ طبی مراکز کو نقصان پہنچا اور 44 لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔
سیلاب میں 8,000 کلومیٹر سے زیادہ سڑکوں اور 440 پلوں سمیت بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
سیلاب کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر امدادی ضرورتیں پیدا ہوئیں اور تقریباً دو کروڑ افراد کو انسانی امداد درکار ہے۔
متاثرہ خاندان سڑکوں کے کنارے قائم عارضی کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے اور تباہی کے تقریباً چھ ماہ بعد بھی بہت سے علاقوں میں صورتحال بدستور مشکل ہے۔
کئی علاقوں میں سیلابی پانی اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تقریباً 45 لاکھ لوگ ان علاقوں میں یا اس کے آس پاس رہ رہے ہیں جنہیں کھڑے پانی کے مسئلے کا سامنا ہے۔
25 لاکھ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ صوبہ سندھ اور بلوچستان کے کم از کم 12 اضلاع میں ملیریا کی وباء پھیلی ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے امدادی کارروائیوں کو بہتر بنانے اور اس موسمیاتی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر بین الاقوامی تعاون کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا "میں نے دنیا میں بہت سی آفات دیکھی ہیں، لیکن اس پیمانے کی موسمیاتی تباہی شاید ہی کہیں اور دیکھی ہو۔"
پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں اور انسانی امداد کے اقدامات سے متعلق ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ یہ ملک عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے ایک فیصد سے بھی کم اخراج کا ذمہ دار ہے، لیکن انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔