پاکستان کی نگران حکومت کی جانب سے 26 ستمبر کو غیرقانونی تارکین وطن کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دیے جانے کے بعد 2 لاکھ سے زیادہ افغان اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔
پناہ گزینوں اور ان کے سامان سے بھرے ٹرک پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے سرحدی علاقے طورخم سے گزر کر افغانستان روانہ ہو رہے ہیں۔
پاکستان سے واپسی اختیار کرنے والے افغان شہریوں کے لیے طورخم کی سرحد پر عبوری کیمپ بنایا گیا ہے جہاں انہیں بائیومیٹرک جانچ پڑتال کے بعد افغانستان بھیجا جاتا ہے۔ حکومت نے خواتین اور بچوں کو اس کارروائی سے استثنیٰ دیا جبکہ بیمار لوگوں اور حاملہ خواتین کو واپسی میں التوا کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
افغان پناہ گزین ٹرک پر اپنا مال اسباب لاد رہے ہیں۔ پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ایچ سی آر' نے پاکستان کی حکومت پر زور دیا ہے کہ "افغان شہریوں کی واپسی رضاکارانہ، محفوظ اور منظم انداز میں ہونی چاہیے اور ان کے حقوق کا مکمل احترام یقینی بنایا جانا چاہیے۔
طورخم سرحد پر افغان پناہ گزین پاکستان کی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کی موبائل گاڑیوں کے قریب جانچ پڑتال کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ پاکستان سے جانے والے متعدد لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں ہنگامی حالات میں واپس ہونا پڑا ہے اور حکومت نے انہیں کوئی مدد فراہم نہیں کی۔
افغان پناہ گزینوں کا خاندان سرحدی راستہ عبور کر کے افغانستان جا رہا ہے۔ جینیوا کنونشن اور پروٹوکول کے تحت پناہ گزینوں کو ان کی رضامندی کے خلاف ایسی جگہ واپس نہیں بھیجا جا سکتا جہاں ان کی آزادی اور زندگی کو خطرات لاحق ہوں۔ تاہم پاکستان ان عالمی معاہدوں کا فریق نہیں ہے۔
یو این ایچ سی آر اور عالمی ادارہ برائے مہاجرت نے پاکستان کو افغان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن، انہیں سنبھالنے اور ان کی جانچ پڑتال کا نظام تشکیل دینے میں تعاون کی پیش کش کی ہے۔ اداروں کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو افغانستان میں تحفظ کے خطرات لاحق ہیں انہیں فی الوقت ملک بدر نہ کیا جائے۔