
وسطی جمہوریہ افریقہ (سی اے آر) میں بہت سے سکولوں پر مسلح فوجوں کا قبضہ ہے یا جنگ، بے گھری اور عدم استحکام کے باعث ان تک رسائی ممکن نہیں، لہٰذا ایسے حالات میں یہ ملک بچوں کے لیے ایک مشکل ترین جگہ بن گیا ہے۔
چونکہ بچوں کو حصول تعلیم کے لیے محفوظ ماحول اور معیاری تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اقوام متحدہ میں بچوں کا فنڈ (یونیسف) طلبہ کی سکولوں کو بحفاظت واپسی ممکن بنانے کے لیے بچوں پر مرتکز اقدامات کو فوقیت دے رہا ہے اور اس کے ساتھ پسماندہ علاقوں میں پانی، نکاسی آب اور صحت وصفائی کا نظام بھی قائم کر رہا ہے۔

نائیجر اور اس کے اردگرد ساحل خطے میں جاری جنگ اور عدم استحکام نیز کووڈ۔19 وباء کے باعث سکول بند کیے جانے کے سبب بہت سے طلبہ پڑھائی سے محروم ہیں اور انہیں استحصال اور بدسلوکی کا نشانہ بنائے جانے کا خطرہ ہے۔
یونیسف ایسے اقدامات کی وکالت کرتا ہے جن کی بدولت تمام بچوں کو معیاری تعلیم تک رسائی میسر آئے۔ ان اقدامات میں تعلیم تک رسائی بہتر بنانا، کرداری اور سماجی تبدیلیوں کے لیے کام کرنا اور تعلیم کے لیے حکومت کی جانب سے خاطرخواہ مالی وسائل کا اہتمام شامل ہیں۔

بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد اور کووڈ۔19 وباءکے نتیجے میں بگڑنے والے معاشی بحران کے درمیان لبنان میں سکولوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ اس غیرمستحکم ریاست کو سرکاری مالی وسائل کے ذریعے دی جانے والی تعلیم کی بڑھتی ہوئی طلب کا سامنا ہے اور محدود مالی وسائل کے سبب سکول چھوڑنے والے طلبہ کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
لبنان کی وزارت تعلیم نے تعلیمی شعبے بشمول اقوام متحدہ کے اداروں کی شراکت سے پانچ سالہ اقدامات پر مشتمل ایک تعلیمی حکمت عملی بنائی ہے جس میں تعلیم تک رسائی میں اضافہ کرنے اور تعلیمی خدمات اور نظام کے معیار کو بہتر بنانے پر توجہ دی گئی ہے۔

شام میں سات سالہ بحران کے بعد جنگ، بے گھری، عدم تحفظ اور اس کے ساتھ تعلیمی اداروں اور ماہر اساتذہ کی کمی نے لاکھوں بچوں کو تعلیم سے محروم کر دیا ہے۔
7,000 سے زیادہ سکولوں کو نقصان پہنچا ہے یا وہ تباہ ہو گئے ہیں اور ایسے میں حالات کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنے والے مراکز اور پہلے سے تیار کیے گئے کمرہ ہائے جماعت کے ذریعے طلبہ کو تعلیم کی جانب واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ اساتذہ کی تربیت، سیکھنے کے متبادل پروگراموں اور ضروری تدریسی مواد سے بھی کام لیا جا رہا ہے جو سکول اور مقامی علاقوں میں طلبہ کی ضروریات پوری کرتا ہے۔

گزشتہ برس افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد غیرملکی امداد کی فراہمی میں خلل آنے سے پہلے ہی دہائیوں کی جنگ، غربت اور طویل خشک سالی نے ملک کی نصف آبادی کو محض خوراک کے حصول کی جدوجہد تک ہی محدود کر رکھا تھا اور قریباً ایک کروڑ لڑکیوں اور لڑکوں کی بقاء بیرون ملک سے دی جانے والی انسانی امداد پر منحصر تھی۔
یونیسف کے مطابق سکول نہ جانے والے سینتیس لاکھ افغان بچوں میں سے اندازاً 60 فیصد لڑکیاں ہیں۔ یونیسف ناصرف ایک اخلاقی لازمے بلکہ معاشی ضرورت کے طور پر بھی ان کی تعلیم کی وکالت کرتا ہے۔

کیوبا کے قومی اعدادوشمار کے مطابق ملک میں 11,842 معذور بچے ایک جامع تعلیمی طریقہ کار کے تحت باقاعدہ سکول جاتے ہیں جن کی تقریباً نصف تعداد ذہنی معذوری کا شکار ہے۔
عمومی تعلیمی نظام میں مشمولہ تعلیم تمام طلبہ کو بامعنی انداز میں سیکھنے کا موقع دیتی ہے اور معذور و غیرمعذور طلبہ حسب ضرورت انفرادی مدد کے ساتھ ایک ہی عمر کے بچوں کی جماعتوں میں پڑھ سکتے ہیں۔

ستمبر میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں 'تعلیم میں تبدیلی اور مستقبل کی تعمیر' کے موضوع پر کانفرنس منعقد ہو گی جس کا مقصد دنیا بھر میں بچوں اور نوجوانوں کو عمومی طور پر درپیش سست رو اور نادیدہ بحرانوں سے نمٹنے میں مدد دینا ہے جن کا تعلق تعلیم کے میدان میں مساوات، مساوی مواقع، معیار اور مطابقت سے ہے۔
یہ کانفرنس عالمگیر سیاسی لائحہ عمل میں تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنانے اور وباء کے نتیجے میں تعلیمی نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے عملی اقدامات میں مدد دے گی اور تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا میں تعلیم کے نظام اور طریقہ ہائے کار کو تبدیل کرنے کا موجب بنے گی۔