
ڈبلیو ایچ او نے جمعہ پانچ مئی کو اعلان کیا کہ کووڈ۔19 عالمگیر صحت کو لاحق ہنگامی صورتحال نہیں رہی۔ سب پہلے یہ اعلان 30 جنوری 2020 کو ادارے کی جانب سے احتیاطی تدابیر کے ایک پُرزور مطالبے میں کیا گیا تھا۔ 70 لاکھ لوگوں کو ہلاک کرنے والا یہ مہلک وائرس سب سے پہلے دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں ظاہر ہوا اور اس سے اگلے مہینے ہزاروں لوگ اس سے متاثر ہوئے۔ 3 فروری 2020 کو اس وائرس کو باقاعدہ طور سے کووڈ۔19 کا نام دیا گیا جب اس کی نئی لڑی 24 دیگر ممالک میں پھیلی۔ 2022 تک ویکسین تیار ہو گئیں جو بڑے پیمانے پر دستیاب تھیں جن میں پیراگوئے کا یہ متحرک ہسپتال بھی شامل ہے۔

مارچ 2020 کے وسط میں ڈبلیو ایچ او نے کووڈ۔19 کو عالمگیر وبا قرار دیا اور کاروبارِ دنیا بند ہو گیا۔ بچوں کے لئے سکولوں میں جانا ممکن نہ رہا جو ریڈیو پر ملک بھر میں نشر کی جانے والی کلاسیں لیتے ایتھوپیا کے اس طالب علم کی طرح فاصلاتی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہو گئے۔ فضائی سفر رک گئے۔ کام کی جگہیں بند ہو گئیں۔ لاک ڈاؤن نے سڑکیں خالی کر دیں۔ طبی کارکن ہیرو بن گئے۔ سائنس دانوں نے وبا کے حوالے سے سوالوں کے جواب جاننے کے لئے اکٹھے ہو کر کام کیا۔ ڈیجیٹل اختراع کاروں نے طبی شعبے، سکولوں، امدادی اداروں، اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں کام کی ضروری جگہوں پر لاکھوں لوگوں کو ایک نئی ورچوئل دنیا سے روشناس کرایا۔

وباء کثیرفریقی طریقہ کار کا امتحان تھی جس میں صنعتوں اور بہت سے شعبوں نے ایک صدی کے عرصہ میں پہلی مرتبہ صحت عامہ کو لاحق اس قدر بڑی ہنگامی صورتحال سے بہترین انداز میں نمٹنے کے لئے باہم مل کر کام کیا۔ بیشتر شہروں کی طرح وبا نے نیویارک میں بھی صحت کے نظام پر بھاری بوجھ ڈالا جہاں اقوام متحدہ کا ہیڈکوارٹر واقع ہے۔

دنیا کو ''نئے معمول'' کا عادی ہونا پڑا۔ لاک ڈاؤن میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ترقی کر گئے تاہم غلط اور گمراہ کن معلومات بھی وائرس کی سی تیزی سے پھیلیں۔ دنیا کے بیشتر حصے میں ہمدردی اور مہربانی کو بھی فروغ ملا۔ ہمسایوں نے ذہنی صحت کے مسائل، تنہائی اور نقصان سے نمٹنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کی۔ عالمگیر معیشت منجمد ہو گئی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس آئن لائن ہونے لگے جہاں اس کے 193 ارکان نے اس مہلک وبا سے چھٹکارا پانے کا لائحہ عمل طے کیا تاہم باوسائل اور بے وسیلہ لوگوں کے مابین فرق بھی بڑھ گیا۔

وبا نے کئی دہائیوں میں ہونے والی ترقی کا پہیہ واپس موڑ دیا اور عدم مساوات بڑھ گئی۔ تمام لوگوں کو ویکسین تک مساوی رسائی دینے کے مطالبات کئے گئے۔ انڈیا میں راجستھان کے ایک گاؤں میں گھر گھر چلائی جانے والی مہم میں اس معمر خاتون کو کووڈ۔19 ویکسین کی دوسری خوراک مہیا کی گئی۔ وبا سے غیرمتناسب طور پر متاثر ہونے والے دیگر کمزور لوگوں کو سماجی اخراج اور بڑھتے ہوئے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ پائیدار ترقی کے لئے 2030 کے ایجنڈے کی تکمیل کے ضمن میں بمشکل حاصل ہونے والی کامیابیاں زائل ہو گئیں تاہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے عالمگیر تعاون بارے تصور ''ہمارے مشترکہ ایجنڈے'' نے مسائل کے ممکن حل بھی تجویز کئے۔

2021 میں گھانا کے شہر کاسوا میں کووڈ۔19 ویکسین لگوانے والا یہ 76 سالہ شخص فخریہ طور سے اپنا ویکسینیشن کارڈ دکھا رہا ہے۔ کووڈ۔19 لاکھوں لوگوں کو متاثر کر رہی ہے اور بعض لوگ اس سے دوسری مرتبہ اس وائرس کا نشانہ بن رہے ہیں۔ یہ بدستور ایک مہلک بیماری ہے جو ناصرف پھیل سکتی ہے بلکہ اس کا وائرس تیزی سے تبدیل ہونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے ممالک کو اس بیماری کے خلاف طویل مدتی روک تھام، اس پر قابو پانے اور اس سے نمٹںے کے لئے 'عالمگیر اقدامات کے منصوبے' کو مزید بہتر بنایا ہے۔ ادارے نے 3 مئی کو اعلان کیا کہ یہ بیماری عالمگیر صحت عامہ کے لئے ہنگامی صورتحال نہیں رہی جبکہ دنیا بالاحتیاط معمول کی جانب بڑھ رہی ہے۔