انسانی کہانیاں عالمی تناظر

کاروباری ہتھکنڈے ناکام، تمباکو نوشی میں کمی واقع: ڈبلیو ایچ او

تمباکو نوشی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
© Unsplash/Andres Siimon
تمباکو نوشی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

کاروباری ہتھکنڈے ناکام، تمباکو نوشی میں کمی واقع: ڈبلیو ایچ او

صحت

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ سگریٹ نوشی روکنے کے اقدامات کو سبوتاژ کرنے کے لیے تمباکو کی صنعت کے ہتھکنڈوں کے باوجود دنیا میں تمباکو استعمال کرنے والوں کی تعداد میں متواتر کمی آ رہی ہے۔

'ڈبلیو ایچ او' کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق تمباکو نوشی دنیا کو درپیش سب سے بڑے طبی خطرات میں سے ایک ہے۔ یہ لت ہر سال 80 لاکھ لوگوں کی جان لے لیتی ہے۔ ایسی 70 لاکھ اموات تمباکو کے براہ راست استعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں جبکہ تمباکو نوشی نہ کرنے والے 13 لاکھ افراد دوسروں کے خارج کردہ دھوئیں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

Tweet URL

تمباکو نوشی کے حوالے سے 2022 کے رحجانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت دنیا میں تقریباً 20 فیصد بالغ افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ 2000 میں یہ تعداد تقریباً 33 فیصد تھی۔

اگرچہ سگریٹ نوشی دنیا میں تمباکو کے استعمال کی سب سے عام قسم ہے، تاہم سگار، حقہ اور بے دھواں تمباکو مصنوعات بھی بڑی مقدار میں استعمال ہوتی ہیں اور یہ سب سگریٹ جتنی ہی خطرناک ہیں۔

تمباکو نوشی کے خلاف کامیابی

تازہ ترین اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں تمباکو نوشی کرنے والے لوگوں کی تعداد 1.25 ارب ہے۔ 150 ممالک میں 15 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں تمباکو نوشی پر قابو پانے کے اقدامات کامیابی سے جاری ہیں۔

برازیل اور نیدرلینڈز اس کی نمایاں مثال ہیں جہاں تمباکو نوشی پر قابو پانے کے اقدام 'ایمپاور' کے نمایاں فوائد سامنے آئے ہیں۔ اس کے تحت لوگوں کو تمباکو نوشی سے تحفظ دینے، تمباکو مصنوعات کی تشہیر اور سرپرستی پر پابندیوں، تمباکو مصنوعات پر ٹیکس میں اضافے اور لوگوں کو تمباکو نوشی سے چھٹکارا پانے میں مدد دینے کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ 

ان اقدامات کے نتیجے میں 2010 کے بعد برازیل میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد میں 35 فیصد کمی آئی ہے جبکہ نیدرلینڈز میں 30 فیصد کمی کا ہدف حاصل ہونے کو ہے۔ 

صحت کی قیمت پر منافع خوری 

'ڈبلیو ایچ او' میں شعبہ فروغِ صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر روئیڈیگر کریچ نے اس نمایاں پیش رفت کا خیرمقدم کیا ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اسے قابل اطمینان سمجھنا درست نہیں ہو گا۔ 

'ڈبلیو ایچ او' نے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ تمباکو پر قابو پانے کی پالیسیاں اپنائیں اور تمباکو کی صنعت کے اقدامات کا مقابلہ جاری رکھیں۔ اس حوالے سے یہ آگاہی بہت اہم ہےکہ کیسے تمباکو کی صنعت اپنے لیے کام کرنے والے گروہوں، تیسرے فریقین، تقریبات، سوشل میڈیا صارفین پر اثرانداز ہونے والی شخصیات، سائنس دانوں کو مالی فوائد کی فراہمی اور جانبدارانہ تحقیق جیسے اقدامات کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دیتی ہے۔ 

ڈاکٹر کریچ کا کہنا ہے کہ جب حکومتیں یہ سوچتی ہیں کہ وہ تمباکو کے خلاف جنگ جیت چکی ہیں تو یہ صنعت طبی پالیسیوں پر اثرانداز ہو کر اپنی جان لیوا اشیا کی فروخت برقرار رکھتی ہے۔ 

جنوب مشرقی ایشیا سب سے آگے

بعض ممالک میں 2010 کے بعد تمباکو کے استعمال کی شرح میں قابل ذکر کمی نہیں آئی جبکہ کانگو، مصر، انڈونیشیا، اردن، اومان اور مولڈووا میں تمباکو نوشوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس وقت جنوب مشرقی ایشیا میں تمباکو نوشی کا رحجان سب سے زیادہ ہے جہاں 26.5 فیصد آبادی سگریٹ یا تمباکو کی دیگر مصنوعات استعمال کرتی ہے۔ اس کے بعد یورپ میں 25.3 فیصد آبادی تمباکو نوش ہے۔ یورپ میں تمباکو نوشی کرنے والی خواتین کی تعداد عالمگیر اوسط سے دو گنا زیادہ ہے جس میں کمی آنے کی رفتار دیگر تمام خطوں کے مقابلے میں سست ہے۔ 

مزید اقدامات پر زور 

'ڈبلیو ایچ او' نے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ تمباکو مصنوعات کی صنعت کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید اقدامات اٹھائیں۔ ادارے کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے ممالک میں 13 تا 15 سال عمر کے بچے بھی تمباکو اور ای سگریٹ جیسی نکوٹین کی حامل اشیا استعمال کر رہے ہیں۔

ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا 2025 تک تمباکو نوشی کرنے والے لوگوں کی تعداد میں 25 فیصد کمی کا ہدف حاصل کر سکتی ہے۔ تاہم تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد میں 2010 کے مقابلے میں 30 فیصد کمی کا رضاکارانہ عالمگیر ہدف حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اندازے کے مطابق صرف 56 ممالک اس ہدف کو حاصل کر سکیں گے جبکہ تین سال قبل شائع ہونے والی ایسی ہی رپورٹ میں یہ تعداد 60 بتائی گئی تھی۔