انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ناکافی قانون سازی قدرت کے خلاف جرائم کی روک تھام میں رکاوٹ

جنگلوں میں درختوں کی غیر قانونی کٹائی بھی قدرتی ماحول کے بگاڑ کا سبب بن رہی ہے۔
Ales Krivec/Unsplash
جنگلوں میں درختوں کی غیر قانونی کٹائی بھی قدرتی ماحول کے بگاڑ کا سبب بن رہی ہے۔

ناکافی قانون سازی قدرت کے خلاف جرائم کی روک تھام میں رکاوٹ

موسم اور ماحول

فطرت کے خلاف جرائم کو روکنے اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کا محاسبہ کرنے کی عالمی کوششیں ممالک اور خطوں کے مابین ماحولیاتی تحفظ کے قوانین میں پائے جانے والے فرق کے باعث مطلوبہ نتائج نہیں دے رہیں۔

اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مضبوط قوانین کی بدولت ایسے جرائم کے ممکنہ اور عادی مجرموں کو روکنے اور تحفظِ ماحول کے لیے نفاذ قانون کے اداروں کو متعدد نئے تفتیشی ذرائع اور وسائل مہیا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

Tweet URL

یہ بات اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) میں شعبہ تحقیق و تجزیے کی سربراہ اینجیلا می نے قدرتی ماحول کے خلاف جرائم کے تجزیے پر پہلی رپورٹ کا اجرا کرتے ہوئے کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے قانون سازی میں بہتری آئی ہے۔ تاہم ان قوانین اور ان کے اطلاق کی صورتحال ہر جگہ ایک جیسی نہیں ہے جس سے جرائم پیشہ گروہوں کو قانونی خامیوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔

یہ رپورٹ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں جاری کی گئی ہے۔ اس میں 'یو این او ڈی سی' نے یہ جائزہ لیا ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں فطرت کے خلاف جرائم کو کس طرح دیکھا جاتا ہے اور ان کے ہاں ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی پر کون سی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ 

فطرت کا نقصان اور سزائیں

اس رپورٹ میں فطرت سے متعلق نو طرح کے جرائم کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان میں جنگلات کا صفایا کرنا اور ان سے لکڑی چرانا، شور کی آلودگی، غیرقانونی ماہی گیری، کچرے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے میں کوتاہی، جنگلی حیات کا عدم تحفظ، اور ہوائی، زمینی اور ٹھوس فضلے کی آلودگی شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے 85 فیصد رکن ممالک نے جنگلی حیات کو نقصان پہنچانا جرم قرار دے رکھا ہے۔ کم از کم 45 فیصد رکن ممالک نے بعض ماحولیاتی جرائم پر چار یا اس سے زیادہ برس کی سزا رکھی ہے اور انہیں بین الاقوامی منظم جرائم کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن (یو این ٹی او سی) کے تحت 'سنگین' جرم قرار دیا ہے۔

جنگلی حیات اور کچرے یا فضلے کے معاملے میں بیشتر ممالک (بالترتیب 164 اور 160) کے قوانین میں کم از کم ایک سزا موجود ہے۔ اس سے برعکس مٹی اور شور کی آلودگی (بالترتیب 99 اور 97 فیصد) سے متعلق جرائم پر چند ہی ممالک نے سزائیں رکھی ہیں۔ 

قوانین اور علاقائی فرق

فطرت کے خلاف جرائم اور ان پر سزاؤں کے معاملے میں ہر ملک اور خطے کی صورتحال ایک دوسرے سے الگ ہے۔ مثال کے طور پر اوشیانا میں 43 فیصد ممالک نے غیرقانونی ماہی گیری کو سنگین جرم قرار دے رکھا ہے جس کی سزا چار یا اس سے زیادہ برس قید ہے۔ دوسری جانب، یورپ میں صرف دو فیصد ممالک میں یہ قابل سزا جرم ہے۔ مشرقی افریقہ میں 18 میں سے 12 ممالک میں جنگلی حیات کو نقصان پہنچانا سنگین جرم ہے۔

افریقہ اور ایشیا میں ایسے ممالک کی اکثریت ہے جہاں فطرت اور جنگلی حیات کے خلاف سنگین جرائم پر بڑی تعداد میں مضبوط قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کی صورتحال حوصلہ افزا نہیں ہے۔

بھوٹان میں جنگلی حیات کے غیر قانونی شکار کی روک تھام کے لیے متحرک اہلکار ایک نیشنل پارک میں گشت میں کر رہے ہیں۔۔
UNDP Indonesia CIWT Project

جنگلی حیات کے خلاف جرم

رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے 164 رکن ممالک میں جنگلی حیات کو نقصان پہنچانا قانون کے تحت قابل سزا جرم ہے۔ بعض ممالک میں اس حوالے سے بنائے گئے قوانین معدومیت کا شکار جنگلی حیات کی بین الاقوامی تجارت کے خلاف بین الاقوامی کنونشن کی شرائط سے بھی زیادہ سخت ہیں۔

دنیا بھر میں جنگلی حیات کے خلاف جرائم پر چند روز سے لے کر عمر قید تک کی سزائیں موجود ہیں۔ 160 ممالک میں فضلے کو غیرمناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا جرم ہے اور ان کے قوانین میں اس حوالے سے کم از کم ایک سزا ضرور رکھی گئی ہے۔ 

قانون کا غیرمساوی اطلاق

رپورٹ میں افراد اور اداروں کے خلاف ان قوانین کے اطلاق کے حوالے سے عدم مساوات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ فطرت یا جنگلی حیات کے خلاف جرائم پر کاروباری ادارے عموماً جرمانے دے کر بچ نکلتے ہیں جبکہ افراد کو قید کی سزائیں بھگتنا پڑتی ہیں۔ 

رپورٹ کے مصنفین نے کہا ہے کہ ممالک ماحولیاتی جرائم کے ارتکاب کے ذرائع کو قبضے میں لینے کے لیے قانون سازی کو مزید بہتر کر سکتے ہیں۔ اس وقت ایسے قوانین کے فقدان کے باعث ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے بڑے معاشی کرداروں کو سزا نہیں ہوتی جبکہ چھوٹے مجرم پکڑے جاتے ہیں۔

'یو این او ڈی سی' کے ماہرین کے مطابق، ماحولیاتی حوالے سے قانون سازی اور سزاؤں کے معاملے میں متعدد جگہوں پر بہتری کی ضرورت ہے۔ رکن ممالک کو ایسے جرائم پر سزائیں بڑھانا ہوں گی اور بین الاقوامی تعاون کے لیے مجرموں کی حوالگی یا باہمی قانونی معاونت جیسے طریقہ ہائے کار کو وسعت دینا ہو گی۔